رسائی کے لنکس

امریکہ اور ایران کے درمیان جنیوا میں مذاکرات


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ان مذاکرات کا مقصد ان تکنیکی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایک حتمی معاہدے کی راہ میں حائل ہیں۔

امریکی اور ایرانی سفارت کاروں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت پیر کو بھی جاری رہی گی۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اُن کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف نے اتوار کو جنیوا میں ان مذاکرات میں شرکت کی جو دو گھنٹوں تک جاری رہے۔

ایران کے جوہری پروگرام کے سربراہ علی اکبر صالحی اور امریکہ کے توانائی کے وزیر ایرنسٹ مونیز بھی ان مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں، جن کا مقصد ان تکنیکی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایک حتمی معاہدے کی راہ میں حائل ہیں۔

دونوں فریقوں نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک معاہدے پر متفق ہونے کے لیے 24 مارچ کی ڈیڈلائن مقرر کی ہوئی ہے اور ایک مستقل معاہدے کے لیے یکم جولائی کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی ہے۔

ان معاہدوں کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔

جان کیری جنہوں نے ہفتہ کو برطانوی وزیر خارجہ سے لندن میں ملاقات کی تھی، نے کہا کہ چھ عالمی طاقتوں کا گروپ جس میں امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی شامل ہیں وہ ایران کے (جوہری پروگرام کے) معاملے میں متحد ہے۔

انھوں نے کہا کہ"اس بار ے میں کسی بھی طرح کا اختلاف نہیں ہے ۔۔۔۔ ہمارے خیال میں ایران کو یہ ثابت کرنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مسقبل میں پر امن رہے گا"۔

یہ تازہ ترین مذاکرات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب اقوام متحدہ کے جوہری ادارے کی طرف سامنے آنے والی ایک نئی رپورٹ میں ایران میں ممکنہ طور پر "مخفی جوہری سرگرمیوں" کی موجودگی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔

تاہم جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے ’آئی اے ای اے‘ نے کہا کہ ایران جوہری معاہدے کی بعض شقوں پر عمل کر رہا ہے۔

ایران کے سرکاری میڈیا نے ایک رپورٹ میں 'آئی اے ای اے' میں ایران کے مندوب رضا نجفی کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ نتائج ان کے ملک کی اس کے پروگرام کے پرامن ہونے سے متعلق "مکمل شفافیت" کا اظہار ہیں۔

XS
SM
MD
LG