رسائی کے لنکس

ایران: حکومت مخالف مظاہروں کے معاملے پر پارلیمان کا اجلاس طلب


ایران کی پارلیمان اتوار کو ایک خصوصی اجلاس منعقد کرنے جا رہی ہے جس میں 28 دسمبر کو شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے معاملے پر بحث ہوگی۔

ایران کی اثنا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کےمطابق ایران کے وزیر داخلہ، انٹیلی جنس کے سربراہ اور سلامتی کونسل کے سربراہ اس میں شرکت کریں گے۔ اس اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق مظاہروں کی بنیادی وجوہات اور مظاہروں کے دوران حراست میں لیے جانے والے افراد کے لیے قانونی امداد کے معاملے پر بھی بحث ہو گی۔

ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو لبرٹی کے مطابق یہ اجلاس اصلاح پسند قانون سازوں کے ایک گروپ کی درخواست پر طلب کیا گیا ہے ۔ ان قانون سازوں نے ایک خط میں حراست میں لیے گئے افراد کے لیے قانونی امداد کا مطالبہ کیا ہے اس کے ساتھ انہوں نے امریکہ کا خاص طور ذکر کرتے ہوئے مظاہروں میں "بیرونی مداخلت" کی مذمت کی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ ہفتے اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کیا ایران پر عائد تعزیرات میں استثنا دینا جاری رکھیں یا نہیں جنہیں 2015ء میں ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتا طے پانے کے بعد معطل کر دیا گیا تھا۔

امریکی قانون کے تحت اس استثنا کی تجدید ہر 120 دنوں کے بعد کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ اس کی تجدید نا کرنے کافیصلہ کرکے امریکہ کی طرف سے (ایران پر) تجارتی پابندیوں کو دوبارہ بحال کرسکتے ہیں۔

دوسری طرف یورپ میں ایران میں حکومت مخالف مظاہرین کے حامی ان کی حمایت کے لیے ہیگ، برلن، ہیمبرگ، لندن اور پیرس میں جمع ہو رہے ہیں۔

ایران میں ان مظاہروں میں کم ازکم 22 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ایک ہزار سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سخت گیر موقف رکھنے والے مذہبی رہنما احمد خاتمی نے جمعے کے خطبے کے دوران کہا کہ جن کو گرفتار کیا گیا ہے خاص طور پر وہ جنہوں نے (ایرنی) پرچم کو نذر آتش کیا ہے انہیں اسلام کا دشمن تصور کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ "ان پر رحم نہیں کرنا چاہیے۔"

حکومت کے عہدیدار منصور غلامی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ گرفتار کیے گئے افراد میں سے ایک تہائی کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم انہوں نے ان کی صحیح تعداد نہیں بتائی۔

جمعہ کو امریکہ کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ اس موقع پر اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے مظاہروں کو " نڈر لوگوں کا اظہار قرار دیا جو کہ اپنی جابر حکومت سے تنگ آ گئے ہیں کہ اور اپنی زندگیوں کا خطرہ مول لینے پر تیار ہو گئے۔" انہوں نے ایرانی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ، امریکہ دیکھ رہا جو کچھ آپ کر رہے ہیں۔"

اس کے ردعمل میں ایرانی سفیر غلام علی خسرو نے کہا کہ یمن اور مشرق وسطیٰ میں دیگر جگہوں پر ہونے والے تنازعات کے موجودگی میں ایران پر ایسا اجلاس بلانا "سلامتی کونسل کے وقار کی منافی ہے۔"

سلامتی کونسل کے دیگر ارکان اور انہوں نے کہا کہ امریکہ ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے۔

دوسری طرف امریکہ کے انٹیلی جنس کے عہدیداروں نے متبنہ کیا ہے کہ تہران اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے اور انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ یہ مظاہرے 2009ء میں متنازع انتخاب کے بعد ہونے والے مظاہروں کے بعد عوامی عدم اطمیناں کا سب سے بڑا اظہار ہیں۔

دوسری طرف ایرانی صدر حسن روحانی کے نقادوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے غریبوں کو (بے یارو مددگار) چھوڑ دیا اور وہ یہ اس لیے کہہ رہے کہ کیونکہ تیل، روٹی اور انڈوں جیسی اہم اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG