رسائی کے لنکس

ایران میں مسلسل احتجاج، حکومت کا اخلاقی پولیس ختم کرنے کا فیصلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایرانی میڈیا نے اتوار کے روز رپورٹ کیا ہے کہ ایرانی حکومت نے ملک میں دو ماہ سے مسلسل جاری مظاہروں کے بعد ملک کی اخلاقی پولیس کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق رواں برس ستمبر کی 16 تاریخ کو تین روز تک ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں رہنے کے بعد مہسا امینی کی ہلاکت سے ملک بھر میں شروع والے مظاہرے مسلسل جاری ہیں جن میں خواتین کی بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے۔

ایران کے خبر رساں ادارے ’اثنا‘ کے مطابق ملک کے اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اخلاقی پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔

یہ تبصرہ ایک مذہبی کانفرنس میں سامنے آیا جب ان سے سوال کیا گیا کہ اخلاقی پولیس کو بند کیوں کیا جا رہا ہے۔

ملک کی اخلاقی پولیس، جس کا سرکاری نام ’گشت ارشاد‘ ہے ملک کے سابق سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد کے عہدہ صدارت کے دوران متعارف کی گئی تھی۔ اس پولیس کا مقصد ملک میں حجاب اور پردے کی ثقافت کو فروغ دینا تھا۔ اس پولیس کے اہلکاروں نے 2006 میں گشت شروع کیا تھا۔

یہ اعلان ایسے موقع پر سامنے آیا جب ایران میں ’ڈریس کوڈ‘ پابندیوں سے متعلق گزشتہ دو ماہ سے جاری مظاہروں کے بعد حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے لیے دہائیوں پرانے حجاب سے سر ڈھانپنے سے متعلق قانون پر نظرِ ثانی کر رہی ہے، اس قانون کے مطابق ایران میں خواتین کے لیے اپنا سر حجاب سے ڈھانپنا لازم ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایران کے اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری کا کہنا ہے کہ پارلیمان اور عدلیہ دونوں اس قانون پر کام کر رہے ہیں کہ آیا قانون میں کسی ترمیم کی ضرورت ہے یا نہیں۔

ایران میں رواں سال 16 ستمبر کو 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف مسلسل احتجاج ہو رہا ہے اور ملک کے کئی علاقوں میں اب بھی مظاہرے جاری ہیں۔

مہسا امینی کا تعلق ایران کے کرد علاقے سے تھا۔ انہیں13 ستمبر کو اخلاقیات کی نگرانی سے متعلق پولیس نے اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ایران کے دارالحکومت تہران آئی تھیں۔

پولیس نے یہ کہتے ہوئے مہسا حراست میں لیا تھا کہ انہوں نے خواتین کے لیےمقرر کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق اپنے سر کے بالوں کو درست طریقے سے ڈھانپا ہوا نہیں تھا۔

ایرانی نیوز ایجنسی ‘اثنا’ کے مطابق اٹارنی جنرل کی طرف سے یہ نہیں بتایا گیا کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ قانون میں کیا تبدیلی کریں گی، جن میں اکثریت میں قدامت عہدوں پر تعینات ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ نظر ثانی کرنے والی ٹیم بدھ کو پارلیمنٹ کے کلچرل کمیشن سے ملاقات کرے گی اور اگلے ایک یا دو ہفتوں میں نتائج سامنے آئیں گے۔

دوسری طرف ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا ہفتے کو کہنا تھا کہ جمہوریہ اور اسلام کی بنیادیں آئینی طور پر قائم کی گئی ہیں۔ تاہم آئین کو نافذ کرنے کا ایک طریقہ کار ہے جس میں لچک ہو سکتی ہے۔

ایران میں حجاب اسلامی انقلاب کے چار برس بعد اپریل 1983 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس انقلاب میں امریکہ کی پشت پناہی سے قائم بادشاہت کا خاتمہ ہوا تھا۔

ایران میں حجاب انتہائی نازک معاملہ تصور کیا جاتا ہے جو کہ قدامت پسندوں کے نزدیک لازمی ہونا چاہیے جب کہ اصلاح پسند اسے انفرادی انتخاب پر چھوڑنا چاہتے ہیں۔

مہسا امینی کی موت کے بعد احتجاج پر اوسلو میں قائم انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ کم از کم 448 افراد ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ گزشتہ ہفتے کہہ چکے ہیں کہ 14 ہزار افراد جن میں بچے بھی شامل ہیں، مظاہروں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG