رسائی کے لنکس

افغانستان میں قدم جمانے کے لیے ایران اور روس کی تگ و دو


کابل بین الاقوامی اڈے پر روسی طیارے میں گولہ بارود کے بکسے (فائل)
کابل بین الاقوامی اڈے پر روسی طیارے میں گولہ بارود کے بکسے (فائل)

روس ابھی تک افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے، جہاں بین الاقوامی مفاہمت کی کاوشیں جاری ہیں؛ جب کہ، ایک اعلیٰ امریکی فوجی اہلکار کے مطابق، وہاں افغان تنازع میں ایران دونوں فریق سے معاملات استوار کرنے کی حرفت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ، جنرل جوزف ووٹل نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ روس اس کئی عشرے پرانے تنازعے کے ''تصفئے میں فریق ہونے'' کا تاثر دے رہا ہے۔

ووٹل نے کہا کہ ''میرے خیال میں جو کام (روس) کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد ہمارے ساتھ مقابلے کی کیفیت برقرار رکھنا ہے، کہ وہ جہاں کہیں ممکن ہو اپنا اثر دکھانے کی کوشش کرے، چاہے یہ افغانستان ہو یا شام، یا پھر کہیں اور''۔
سینٹکام کے کمانڈر نے اس جانب توجہ دلائی کہ ''وہ غلط تاثر دینے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، تاکہ اس وہ من پسند بیانیہ پیدا کرے۔ وہ نہ صرف افغانستان بلکہ عراق اور شام بھی مستقل یہ تصویر کشی کر رہا ہے کہ امریکہ داعش کی حمایت اور پروپیگنڈا کا ذمہ دار ہے''۔
ووٹل نے کہا کہ یہ تصور ہی ''مضحکہ خیز ''ہے کہ کسی طور امریکہ دولت اسلامیہ کے دہشت گرد گروپ کی حمایت کر رہا ہے، جسے داعش بھی کہا جاتا ہے۔


روس کا بگاڑ پیدا کرنے کا کردار

واشنگٹن میں قائم 'نیشنل ڈفنس یونیورسٹی' کے ئائب پروفیسر، میٹ ڈیرنگ نے کہا ہے کہ افغانستان میں روس کی مداخلت حیران کُن نہیں ہے۔
ڈیرنگ کے الفاظ میں ''افغانستان میں بگاڑ پیدا کرنے والے فریق کا کردار ادا کرنے کی وہ ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے۔ مجھے یہی امید ہے کہ وہ کئی محاذوں پر یہی کچھ کرتا رہے گا، چاہے یہ معاملہ طالبان سے تعلق پیدا کرنے کا ہو یا حکومت مخالف پارٹیوں کی حمایت کرنے کا''۔
کیلی فورنیا کے بحریہ کے پوسٹ گریجوئیٹ اسکول کے پروفیسر اور 'طالبان نریٹوز' کتاب کے مصنف، ٹھامس جانسن نے کہا ہے کہ ایک طرف روس افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ جمانے کی کوشش کر رہا ہے، تو دوسری جانب اس کا کردار مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔


طالبان کے ساتھ روسی روابط


روس افغان طالبان کے ساتھ اپنے روابط کی پردہ پوشی نہیں کرتا، لیکن روسی اہلکار اس بات پر مصر ہیں کہ اُن کا ملک باغیوں کے ساتھ اس لیے رابطے میں ہے تاکہ امن بات میں انھیں شامل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
اس معاملے پر افغان حکومت کی جانب سے اظہار تشویش کے بعد اگست میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ ''بنیادی طور پر ہم یہ روابط اس لیے جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ روس میں روسی شہریوں، وہاں موجود روسی ایجنسیوں کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جاسکے، اور ساتھ ہی طالبان کو باور کرایا جائے کہ وہ مسلح تنازعے کی مذمت کریں اور حکومت کے ساتھ قومی مکالمے میں شریک ہوں''۔
لاوروف نے افغان بنانئے کو مسترد کیا کہ سرکشوں کے ساتھ روس کے روابط کا مقصد طالبان کو داعش کے شدت پسندوں سے لڑانا ہے۔


افغانستان میں ایران کا کردار


افغانستان میں اثر و رسوخ پیدا کرنے کی کوششوں کے ضمن میں روس اکیلا ملک نہیں۔

سنٹرل کمان کے سربراہ، ووٹل نے کہا ہے کہ افغانستان میں ایران نے بھی اپنی بازی کھیلنے کے لیے کمر کس لی ہے، جس کی یہ کوشش ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ ساتھ طالبان سے بھی تعلقات استوار رکھے۔
اُنھوں نے کہا کہ روس کے برعکس، ایران اپنے استحکام کے بارے میں زیادہ فکرمند ہے۔
ووٹل نے جمعرات کو 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ''کوئی شک نہیں کہ وہ (ایرانی راہنما) ہمارے (امریکہ کے لیے) محبت کا کوئی جذبہ نہیں رکھتے۔ لیکن، میں سمجھتا ہوں کہ ایران اپنی مشرقی سرحد کے ساتھ معاملات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے، جو افغانستان کا مغربی حصہ ہے، اور اس کے باعث ایران کو لاحق خدشات پر اسے تشویش رہتی ہے''۔

XS
SM
MD
LG