رسائی کے لنکس

شھرام امیری کا کیس ایک معمہ


US President Barack Obama speaks at a memorial service for the victims of the Sandy Hook Elementary School shooting on December 16, 2012 in Newtown, Connecticut.
US President Barack Obama speaks at a memorial service for the victims of the Sandy Hook Elementary School shooting on December 16, 2012 in Newtown, Connecticut.

ایرانی نیوکلیئر سائنسداں شھرام امیری کا کیس ، جو اب ایران واپس جا رہے ہیں، اب تک ایک راز بنا ہوا ہے۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ انہیں امریکی انٹیلی جنس ایجنٹوں نے اغوا کیا تھا، لیکن امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے امریکہ میں رہ رہے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی پیچیدہ انٹیلی جنس آپریشن کا حصہ ہوں۔

شھرام امیری کے کیس میں صرف دوباتیں یقینی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ وہ ایک برس پہلے سعودی عرب میں عمرے کے دوران لا پتہ ہوئے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کے ایرانی انٹریسٹ سیکشن میں پہنچ گئے ہیں اور ایران واپس جانا چاہتے ہیں۔ ان دونوں واقعات کے درمیان جو کچھ ہوا اس پر تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے۔

ایران کا اصرار ہے کہ شھرام امیری کو امریکی انٹیلی جنس ایجنٹوں نے اغوا کیا تھا۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان پی جے کرولے کا کہنا ہے کہ’’ مسٹر امیری یہاں اپنی مرضی سے آئے تھے۔ وہ یہاں کچھ دن رہے ہیں۔ میں یہ نہیں بتاؤں گا کہ وہ یہاں کتنے عرصے رہے ہیں۔ لیکن اب انھوں نے ایران واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

لیکن یہ کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ وہ امریکہ کیسے پہنچے اور پھر انھوں نے کیا کیا۔ پھر بات ان تین وڈیوز سے اور بھی الجھ گئی ہے جو گذشتہ سال دیکھنے میں آئے جن میں امیری یا ان سے ملتا جلتا کوئی شخص نظر آرہا ہے۔ ایک وڈیو میں امیری کہہ رہے ہیں کہ انہیں اغوا کیا گیا ہے، دوسرے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ آزادی سے ریاست ایری زونا میں رہ رہے ہیں اور تیسرے وڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ وہ امریکیوں کے چنگل سے نکل آئے ہیں ۔

بعض رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ سے آن ملے تھے اور ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کر رہے تھے۔ امیری ایران کی مالک اشھتریونیورسٹی میں کام کرتے تھے۔ لیکن اگر وہ اپنا ملک چھوڑ آئے تھے تو پھر اب واپس کیوں جا رہے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق، انہیں واپسی پر مجبور کرنے کے لیے ایرانی حکام نے ان کے گھرانے کو دھمکی دی تھی۔ لیکن ایک اور امکان یہ ہے کہ وہ در اصل اپنی حکومت کے خلاف نہیں ہوئے تھے بلکہ انھوں نے یہ سوانگ رچایا تھا۔

سی آئی اے کے سابق آپریشنز افسر چارلس فیڈس کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنی حکومت سے منحرف ہو جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ پتہ چلانا کہ اصل حقیقت کیا ہے، آسان کام نہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں اکثر ایسے لوگوں کو استعمال کرتی ہیں جو نقلی ڈیفیکٹر ہوتے ہیں یعنی جو ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک اور اپنی حکومت سے منحرف ہو گئے ہیں لیکن یہ ان کی چال ہوتی ہے ۔1985 میں سوویت انٹیلی جنس افسر ویتالے یورچینکو روم میں تعینات تھے کہ انھوں نے سی آئی اے سے مل جانے کا فیصلہ کر لیا۔ بعد میں اسی سال، وہ واشنگٹن میں سی آئی اے کے ایک افسر کے ساتھ کھانے کے درمیان اٹھے اور غائب ہو گئے۔ بعد میں وہ ماسکو میں نظر آئے۔

اگر امیری کو کسی منصوبے کے تحت اپنے ملک سے وفاداری ختم کرنے اور امریکہ آکر یہاں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کے لیے بھیجا گیا تھاتو وہ ضرور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ امریکہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ سوالات کرنے والوں کو ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں غلط معلومات فراہم کریں گے۔

لیکن چارلس فیڈس کہتے ہیں کہ اپنا اعتبار قائم رکھنے کے لیے منحرف ہونے والے جاسوسوں کو تھوڑی بہت صحیح معلومات بھی فراہم کرنی ہوں گی۔’’یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ ایسی معلومات فراہم کی جانی ضروری ہیں جن میں کوئی وزن ہو کیوں کہ اگر تھوڑی بہت خفیہ اطلاعات فراہم نہیں کی جائیں گی تو بہت جلد بھانڈا پھوٹ جائے گا۔‘‘

شطرنج کی طرح، کاؤنٹر انٹیلی جنس میں بعض اوقات کسی زیادہ قیمتی مہرے کو بچانے کے لیے کسی کم درجے کے مہرے کو قربان کرنا پڑتا ہے ۔ مثلاً یورچینکو نے دو سوویت جاسوسوں کی شناخت افشا کردی جو امریکن انٹیلی جنس میں داخل ہوکر جاسوسی کر رہے تھے لیکن ممکن ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہو تا کہ زیادہ اہم ایجنٹوں کو بچایا جا سکے۔ اسی طرح امیری کو نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں کم از کم کچھ خفیہ انٹیلی جنس فراہم کرنی پڑی ہوگی۔

کاؤنٹر انٹیلی جنس افسر یہ طے کرنے کے لیے کہ اپنی حکومت کے خلاف کام کرنے والا جاسوس صحیح معنوں میں ہم سے آ ملا ہے یا نہیں یہ معیار استعمال کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں جو خفیہ اطلاعات فراہم کی ہیں، کیا وہ اتنی حساس نوعیت کی ہیں جو دوسرا فریق کبھی افشا نہ کرتا۔

چارلس فیڈس کہتے ہیں’’یہ معیار بظاہر بڑا اچھا لگتا ہے۔ لیکن یہ طے کرنا کہ کونسی خفیہ اطلاعات حساس نوعیت کی ہیں، اکثر بہت مشکل ہوتا ہے اور ہم سے اکثر فاش غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ اس شخص نے ہمیں جو معلومات فراہم کی ہیں وہ روسی یا چینی یا کوئی اور ملک، ہمیں کبھی نہ دیتا۔ اور پھر دس 15 برس بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ نہیں، ان کے لیے ہمیں یہ معلومات دے دینا کوئی خاص بات نہیں تھی۔‘‘

لیکن شھرام امیری کے کیس میں سچائی کیا ہے، اس کا شاید کبھی پتہ نہ چلے ۔ یہ معاملہ دو ملکوں کے دارالحکومتوں کے درمیان سربستہ راز رہے گا

XS
SM
MD
LG