رسائی کے لنکس

جنگ جاری، لاکھوں عراقی بے گھر ہو گئے


صوبہ خضر میں پناہ گزینوں کےلیے قائم کیا جانے والا کیمپ، 22 اکتوبر 2016
صوبہ خضر میں پناہ گزینوں کےلیے قائم کیا جانے والا کیمپ، 22 اکتوبر 2016

داعش نے جو بستیاں اور علاقے خالی کیے ہیں وہ تباہی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ جلے ہوئے گھر ، دھوئیں سے کالی دیواریں، تیل کے کنوؤں سے اٹھتا ہوا دھواں اور فضا میں رہرہلے بخارت موجود ہیں۔

عراقی جنگ سے اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ اپنی بستیاں اور آبادیاں خالی کررہے ہیں اور ان علاقوں کی طرف جارہے ہیں جن پر اس سے پہلے اسلامک اسٹیٹ کا قبضہ تھا۔ عراقی مسلسل سفر میں ہیں۔

امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کے لیے کیمپوں کے قیام پر کام کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ موصل کی جنگ کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو جائیں گے ، جب کہ جن بستیوں اور قصبوں پر دوبارہ قبضہ کیا گیا ہے ، وہ عملی طور پر خالی پڑے ہیں۔ وہ بم باری سے تباہ ہو چکے ہیں اور تیل کے کنوئیں جلنے سے سیاہ پڑ چکے ہیں۔

تیل کے کنوؤں میں آگ لگنے سے دھوئیں کے بادلوں نے قیارہ نامی قصبے کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ جب کہ گندھک کے ایک پلانٹ کے جلنے سے فضا میں زہریلے بخارت پھیلے ہوئے ہیں۔

اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند کرد پیش مرگہ اور عراقی فورسز کے مقابلے سے بھاگتے ہوئے چیزوں کو نذر آتش کررہے ہیں۔

موصل سے شمال کی جانب 30 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ خضر میں واقع پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں خیموں پر مٹی کی تہہ جم گئی ہے جب کہ امدادی کارکن وہاں مزید لاکھوں پناہ گزینوں کی آمد کی توقع کررہے ہیں۔

اس کے قریب واقع حسن شام نامی ایک گاؤں میں اگرچہ بہت سے گھر بظاہر ٹھیک حالت میں کھڑے ہیں ، لیکن بم دھماکوں اور پر خطر راستوں کے باعث لوگوں کے لیے اپنے گھروں کو لوٹنا بہت دشوار ہے۔

پناہ گزینوں کے بین الاقوامی ادارے کا کہنا ہےکہ موصل کی واپسی کے لیے اس مہینے کے آغاز میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 10 ہزار سے زیادہ افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موصل کی جنگ خطرناک اور طویل ہو سکتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ لاکھوں عراقی اپنے گھر بار سے محروم ہو چکے ہیں، حکام کا خیال ہے کہ دس سے پندرہ لاکھ افراد اب بھی موصل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG