رسائی کے لنکس

عراقی پارلیمنٹ صدر کے انتخاب میں تیسری بار ناکام


عراقی پارلیمان (فائل فوٹو)
عراقی پارلیمان (فائل فوٹو)

عراقی قانون ساز بدھ کو تیسری باراسمبلی اجلاس میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے قومی صدر منتخب کرنے میں ناکام رہے ، حکام کے مطابق اس سے جنگ زدہ ملک میں سیاسی بحران طول پکڑ رہا ہے۔

گزشتہ برس کے انتخابات کے بعد صدر کے انتخاب میں پارلیمنٹ کا مسلسل ناکام رہنا شیعہ سیاسی گروہوں کے درمیان گہرے اختلافات کی عکاسی کرتا ہے ۔ صدر کے انتخاب کے لیے ہونے والے اجلاس کا ایک گروپ نے بائیکاٹ کیا ،جس کے بعد پارلیمنٹ کی پریس سروس نے کوئی نئی تاریخ بتائے بغیر اعلان کیا کہ اسمبلی کا اجلاسغیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے۔

عراق کی وفاقی عدالت نے اراکین پارلیمنٹ کو نئے صدر کے انتخاب کے لیے چھ اپریل تک کی مہلت دی ہے۔

ماہرسیاسیات حمزہ حداد نے کہا ہے کہ اگر دی گئی مہلت ختم ہوگئی تو ہم اس مقام پر پہنچ سکتے ہیں کہ جہاں نئے انتخابات کا فیصلہ کیا جائے گا تاکہ تعطل ختم ہو۔

ایک ماہر قانون احمد الصوفی کے مطابق عدلیہ صرف آئین کی خلاف ورزی کا تعین کرسکتی ہے، سیاسی تعطل کو ختم کرنے کے لیے کوئی پہل نہیں کرسکتی۔

پارلیمانی ذرائع نے خبررساں ادارے، اے ایف پی کو بتایا کہ329 اراکین اسمبلی میں سے صرف187 اراکین بدھ کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں موجود تھے جو تعداد ووٹنگ کے لیے درکار دو تہائی کے کورم سے بہت کم تھی۔

اکتوبر2021ء کے قانون ساز انتخابات کے چھ ماہ بعد بھی اب تک عراق میں کوئی نیا صدر یا وزیر اعظم نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک سیاسی طور پر مفلوج ہے۔

اراکین پارلیمنٹ کو کنوینشن کے تحت پہلےکرد اقلیت میں سے کسی کو دو تہائی اکثریت سے ریاست کا سربراہ منتخب کرنا ہے،جس کے بعدمنتخب صدر حکومت کے سربراہ کا تقرر کرے گا۔ یہ عہدہ ابھی تک مصطفی الکاظمی کے پاس ہے جوپچھلی حکومت کے سربراہ تھے۔

صدارت کے لیے40 امیدواروں میں سے دو کو سب سے آگے سمجھا جاتا ہے۔ان میں پیڑیاٹک یونین آف کردستان کے برہم صالح اور ان کے حریف کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے ریبار احمد شامل ہیں۔

تیرہ فروری کو عراق کی سپریم کورٹ نے کے ڈی پی کے حمایت یافتہ تجربہ کار سیاستدان صدارتی امیدوار ہوشیار زیباری کو ان کے خلاف برسوں پرانے بدعنوانی کے الزامات کے تحت دائر شکایت پر نااہل قرار دے دیا۔

اکتوبر کے انتخابات کے بعد عراقی سیاست ہنگامہ آرائی کا شکار ہوگئی ہے ۔ ان انتخابات میں ٹرن آوٹ کم تھا ، ووٹنگ کے بعد دھمیکوں اور تشدد کا سلسلہ شروع ہوا اور ووٹنگ کے حتمی نتائج کی تصدیق میں بھی ایک ماہ کی تاخیر ہوئی تھی۔

سب سے بڑے سیاسی گروپ جس کی قیادت شیعہ عالم مقتدا الصدر کررہے ہیں، احمد کی حمایت سےپہلے صدارت کے لیے زیباری کی حمایت کررہے تھے۔

پارلیمنٹ کی ووٹنگ میں ناکامی عام انتخابات کے بڑے فاتح الصدر اور طاقتور رابطہ کاری فریم ورک ، جنھوں نے بائیکاٹ کیا ، کے درمیان عراقی سیاست میں خلیج کی عکاسی کرتا ہے۔ رابطہ کاری فریم ورک میں سابق وزیر اعظم نوری المالکی کی پارٹی اورایران نواز فتح الائنس اور شیعہ زیر قیادت سابق نیم فوجی گروپ حشد الشعبی کا سیاسی بازو شامل ہے۔

صدارت کے لیے احمد کی حمایت کے ساتھ الصدر وزارت عظمی کا عہدہ برطانیہ میں عراق کے سفیر، اپنے کزن اور بہنوئی جعفر الصدر کے لیے چاہتے ہیں جو رابطہ کاری فریم ورک کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

الصدر نے بدھ کو کسی بھی سمجھوتے کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اتفاق رائے کی حکومت عراق کو ، بقول ان کے،''موت کی جانب دھکیل دے گی''۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG