رسائی کے لنکس

’’عراق میں حکومت سازی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں‘‘


’’عراق میں حکومت سازی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں‘‘
’’عراق میں حکومت سازی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں‘‘

عراق میں ووٹوں کی گنتی اب بھی جاری ہے لیکن ابتدائی نتائج سے ایسا لگتا ہے کہ کسی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بڑے بڑے دھڑوں کو مخلوط حکومت بنانی ہوگی اور اس کے لیے مذاکرات میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔

عراق میں پارلیمانی انتخاب ختم ہوئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو چکا ہے ۔ ووٹنگ کے نتائج آہستہ آہستہ آ رہے ہیں لیکن آثار ایسے ہیں کہ کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ جزوی نتائج سے ظاہر ہوا ہے کہ وزیر اعظم نوری المالکی کی حامی پارٹیوں کا اتحاد بغداد میں اور بعض جنوبی صوبوں میں جیت رہا ہے ۔جن علاقوں میں سنیوں کی اکثریت ہے وہاں ایسا لگتا ہے کہ ان پارٹیوں کے اتحاد کا پلہ بھاری ہے جن کی قیادت سابق وزیر اعظم عیاد الاوی کر رہے ہیں جو سیکولر شیعہ ہیں۔ جیسا کہ توقع تھی شمالی عراق کے کرد صوبوں میں کردوں کی پارٹیوں کا کنٹرول برقرار ہے ۔

اس سے پہلے 2005 میں جو انتخاب ہوئے تھے بیشتر سنیوں نے ان کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن گذشتہ ہفتے کے انتخاب میں بظاہر انھوں نے بڑی تعداد میں ووٹنگ میں حصہ لیا۔

تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ سنیوں کا اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنا بڑی مثبت علامت ہے ۔ واشنگٹن میں قائم انسٹیٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار کی صدر کمبرلے کاگان کہتی ہیں’’میر ے خیال میں یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ سنّی علاقوں میں اتنے زیادہ لوگوں نے ووٹ ڈالے ۔ ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سنّی آبادی سیاسی عمل میں شرکت کے لیے بےچین ہے ۔‘‘

بعض امیدواروں نے ابھی سے دھاندلی کے الزامات لگانا شروع کر دیے ہیں اگرچہ اقوامِ متحدہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کے شواہد نظر نہیں آئے ہیں۔جس سست رفتاری سے انتخاب کے نتائج کا اعلان ہو رہا ہے اور پارٹیوں کے درمیان جو سخت مقابلہ ہے اس سے یہ تشویش پیدا ہو رہی ہے کہ کیا عراق کے انتظامی ادارے جو بالکل نئے ہیں، پُر امن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا انتظام کر سکتے ہیں۔

کمبرلے کہتی ہیں’’تشدد ایک بار پھر پھوٹ پڑنے کا امکان تو ہمیشہ موجود ہوتا ہے لیکن میرے خیال میں ایسا ہوگا نہیں کیوں کہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے ہیں اور عراق کے انتخاب میں عوام کی شرکت واقعی غیر معمولی تھی ۔‘‘

2005 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد، سیاسی لیڈر پانچ مہینے سے زیادہ عرصے تک حکومت کی تشکیل کی جدوجہد میں لگے رہے تھے ۔ اس دوران غیر یقینی حالات اور افرا تفری کی وجہ سے باغیوں کو سنبھالا لینے کا موقع مِل گیا اور بعد میں جو فرقہ وارانہ فساد ہوئے ان میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے ۔

انسٹیٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وارکی Marisa Cochrane Sullivan کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں حالیہ انتخابات کے بعد بھی حکومت بنانے کےجوڑ توڑ میں بہت وقت لگ جائے گا۔ وہ کہتی ہیں’’میرے خیال میں چونکہ چوٹی کی چار بڑی پارٹیوں کو تقریباً برابر کی نشستیں ملیں گی اس لیے حکومت کی تشکیل سے قبل، بند دروازوں کے پیچھے بہت زیادہ جوڑ توڑ اور سودے بازی ہو گی۔اس کام میں ہفتے نہیں بلکہ کئی مہینے لگ جائیں گے ۔‘‘

عراق میں تقریباً 96,000 امریکی فوجی موجود ہیں اور پینٹا گان کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ محفوظ ماحول کی فراہمی اور اقتدار کی پُر امن منتقلی کے لیے ان فوجیوں کو عراق میں ہی رکھنا چاہیں گے۔ عہدے دار کہتے ہیں کہ اس کام کے مکمل ہو جانے کے بعد امریکہ عراق میں اپنی فوجوں کی تعداد میں بھاری کمی کر دے گا۔

تجزیہ کار جیمز ڈنلے عراق میں امریکی فوج کے ساتھ دو بار ڈیوٹی دے چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی ممکن ہے، ’’میں چند برس پہلے عراق میں فوج کا پلاٹون لیڈر تھا۔ اس وقت کے مقابلے میں، عراق کی سکیورٹی فورسز کی حالت میں زبردست تبدیلی آئی ہے اور ان کی حالت مسلسل بہتر ہورہی ہے۔ چند برس پہلے جب میں بغداد میں تھا اگر آپ مجھے بتاتے کہ ان کی حالت اتنی اچھی ہو جائے گی تو میں یقین نہ کرتا ۔ انھوں نے صحیح معنوں میں اپنی صلاحیتیں بہتر بنائی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی فوجوں کے جانے سے جو خلا پیدا ہوگا اسے عراق کے فوجی بہت اچھی طرح پُر کر لیں گے۔‘‘

امریکہ کا ارادہ ہے کہ ستمبر تک عراق میں امریکی فوجوں کی تعداد 50 ہزار کر دی جائے ۔ صدر باراک اوباما نے حکم دیا ہے کہ اگلے سال کے آخر تک تمام امریکی فوجیں واپس بلا لی جائیں۔

XS
SM
MD
LG