رسائی کے لنکس

شام: داعش کے روسی بولنے والے شدت پسندوں کی اپنی برادری


جارجیا کی فوج کا سابق سارجنٹ عمر الشیشانی کہلانے والا ترکھان بتراشولی داعش کا اہم کمانڈر ہے۔ فائل فوٹو
جارجیا کی فوج کا سابق سارجنٹ عمر الشیشانی کہلانے والا ترکھان بتراشولی داعش کا اہم کمانڈر ہے۔ فائل فوٹو

ترکی میں مقیم داعش کے زیر قبضہ شامی شہر دیر الزور سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکن سلیم الحمود نے کہا کہ ’’روسی بولنے والے جہادیوں نے داعش کے اندر اپنی ایک برادری بنا لی ہے۔‘‘

وسط ایشیائی ریاستوں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان سے تعلق رکھنے والے 5,000 شدت پسند مشرق وسطیٰ میں داعش میں شامل ہیں۔

روسی بولنے والے مسلمان ناصرف داعش کی قیادت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں انہوں نے اپنی آبادیاں قائم کر رکھی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی جہاد کے لیے تربیت کر رہے ہیں۔

روسی بولنے والے شدت پسند داعش میں شامل غیر ملکی جنگجوؤں میں دوسرا بڑا گروہ ہیں۔ نیویارک میں قائم صوفان گروپ کے مطابق وسطی ایشیا اور روس سے داعش میں شریک ہونے والے شدت پسندوں کی تعداد میں جون 2014 کے بعد سے تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

ان کے رسوم و رواج اور نسلی پس منظر ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں مگر ایک چیز انہیں دوسرے شدت پسندوں سے ممتاز کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ سب روانی سے روسی زبان میں استعمال ہونے والے 'سیریلک' رسم الخط پڑھ اور لکھ سکتے ہیں۔ روس سے آزادی پانے والی ان ریاستوں میں کئی دہائیوں تک روسی زبان کو مشترکہ زبان کی طور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ان نام نہاد ’سیریلک شدت پسندوں‘ میں سے اکثر شام کے شہر رقہ کے قریب آباد ہوئے ہیں اور اس علاقے میں رہنے والوں میں بعض رسومات اور عادات کے باعث برادرانہ تعلقات پیدا ہو گئے ہیں۔ وہاں واقع ابو بکر داغستانی مسجد میں روسی زبان میں جمعے کے خطبے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ لوگ عربی اور قران کی تعلیم کے لیے ابو مسلم اسلامی سکول میں داخلہ لے سکتے ہیں۔

شمالی قفقاز کے علاقے داغستان سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی بریگیڈ کے سربراہ ابو حنیف جماعت کی زیر نگرانی چلنے والے ایک سکول میں بچے روسی زبان میں قران اور ریاضی کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ شدت پسندوں کی بیویاں ایک روسی سٹور سے اپنے ملکوں کی اشیا خرید سکتی ہیں۔

ترکی میں مقیم داعش کے زیر قبضہ شامی شہر دیر الزور سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکن سلیم الحمود نے کہا کہ ’’روسی بولنے والے جہادیوں نے داعش کے اندر اپنی ایک برادری بنا لی ہے۔‘‘

داعش میں دنیا بھر سے جنگجو شامل ہو رہے ہیں جن میں شمالی افریقہ اور یورپ سے آنے والے جنگجو بھی شامل ہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ ’’ جنگجوؤں کی ایک کثیر تعداد وسطی ایشیا کی ریاستوں سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘

’’عرب اور افریقی جنگجوؤں کی نسبت یہ اپنی تربیت اور نظم و ضبط میں بہت مختلف ہیں۔‘‘

الحمود نے مزید بتایا کہ داعش کی قیادت انہیں اہم عہدوں پر تعینات کر رہی ہے ’’کیونکہ وہ سخت جان ہیں اور مقامی آبادی سے ہمدردی نہیں رکھتے۔‘‘

چونکہ وہ دیگر جہادیوں کے ساتھ نہیں گھلتے ملتے اس لیے داعش کی قیادت انہیں ’’بہت قابل اعتماد اور لچک دار فورس‘‘ کے طور پر دیکھتی ہے۔

عام خیال کے برعکس کہ جنگجو داعش میں پیسہ بنانے کے لیے شریک ہو رہے ہیں، ان میں سے بہت سے جنگجو شام میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں کو اپنا گھر تصور کرتے ہیں اور اپنے آپ کو زر خرید فوجی نہیں سمجھتے۔

تاجکستان واپس لوٹنے والے داعش کے سابق جنگجو باباجون کرابایوف نے کہا کہ یہ جنگجو دولت اسلامیہ کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے ملک میں مخدوش اقتصادی صورتحال کے باعث روس میں ملازمت کی تلاش کے لیے گئے تھے جب وہ داعش کے بھرتی نیٹ ورک کا شکار ہو گئے۔

’’ان میں سے کئی پیسے کے لیے لڑتے ہیں مگر اکثر وہاں نظریاتی وجوہات کے باعث موجود ہیں۔‘‘

باباجون کرابایوف کو کچھ پیسے ملے مگر انہوں نے اس لیے داعش چھوڑ دی کیونکہ دیگر جنگجوؤں کی طرح وہ اپنے عقائد میں اتنے ثابت قدم نہیں تھے۔

ابو عمر الشیشانی اور تاجکستان میں امریکی تربیت یافتہ پولیس کے کرنل گل مراد حلیموف داعش میں شریک ہونے کے لیے مشرق وسطیٰ چلے گئے اور اس کے اعلیٰ ترین عہدیداروں میں شامل ہیں۔ انہوں نے روسی بولنے والے مسلمانوں، جنہیں اپنے ممالک میں شناخت کے بحران کا سامنا ہے، کے لیے داعش میں تعلق کا احساس پیدا کیا۔

صوفان گروپ کے مطابق سیریلک شدت پسندوں کی اکثریت شمالی قفقاز سے تعلق رکھتی ہے، خصوصاً چیچنیا اور داغستان سے، جو شدت پسندی کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔

کچھ کا خیال ہے کہ اگرچہ روس صدر بشارالاسد کی حمایت کر رہا ہے مگر اپنے ملک میں سب سے متحرک شدت پسندوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ فرار ہو کر شام چلے جائیں۔

روسی بولنے والے جہادی داعش میں رہ کر اپنی پسند کا طرز زندگی اختیار کر سکتے ہیں اور وہاں مستقل قیام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جہاں وہ اپنے بچوں کی شدت پسندی میں تربیت کر سکیں۔

وسطی ایشیا کے کچھ مسلمان خاندان بھی اپنے بچوں کو داعش کے علاقوں میں اس لیے بھیجتے ہیں تاکہ وہ وہاں بہتر زندگی گزار سکیں۔

کرغزستان کی وزارت داخلہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند مہینوں میں 10 سال سے کم عمر کے 85 بچے اور 36 نو عمر لڑکے کرغزستان سے شام گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG