رسائی کے لنکس

داعش کو ہتھیاروں کی قلت کا سامنا


فلوجہ
فلوجہ

عراق کی لڑائی میں ملوث کمانڈروں نے اس ہفتے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ امریکی اتحاد، روس اور عراقی حکومت کے طیاروں کی علیحدہ علیحدہ کارروائیوں کی مدد سے اس دہشت گرد گروپ کے بھاری ہتھیار اور آلات ختم ہونے لگے ہیں، جو اُس نے حالیہ برسوں کے دوران اکٹھے کیے تھے

جوں جوں داعش کے پاس موجود جدید نوعیت کے ہتھیار کم ہو رہے ہیں، دولت اسلامیہ کے جنگجو زیادہ تعداد میں خودساختہ اسلحہ تیار کر رہے ہیں۔

عراق کی لڑائی میں ملوث کمانڈروں نے اس ہفتے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ امریکی اتحاد، روس اور عراقی حکومت کے طیاروں کی علیحدہ علیحدہ کارروائیوں کے نتیجے میں اس دہشت گرد گروپ کے بھاری ہتھیار اور آلات کے ذخائر ختم ہونے لگے ہیں، جو اُس نے حالیہ برسوں کے دوران اکٹھے کیے تھے۔

جمال سوارے، کُرد فورس کے کمانڈر ہیں جو موصل کے شمال میں واقع خضر کے آگے کے محاذ پر تعینات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہتھاریوں میں کمی کی وجہ سے، داعش کے جنگجو ’’عجیب قسم کے ہتھیاروں کی طرف لپک رہے ہیں‘‘۔

سوارے نے بتایا کہ ’’یہ ہتھیار گیس کے ڈبوں اور لوہے کے بھاری پائپوں میں دھماکہ خیز مواد بھر کر بنائے جاتے ہیں، کبھی کبھار یہ ’فرٹلائزر‘ سے بنے ہوتے ہیں‘‘۔ اُنھوں نے اس موقع پر کُرد افواج کی جانب سے برآمد کیے ہوئے خودساختہ اسلحے کی نمائش بھی کی۔

جون 2014ء میں جب داعش کے دہشت گردوں نے عراق کے دوسرے بڑے شہر، موصل پر قبضہ کیا، عراقی حکومت کی افواج اپنا اسلحہ چھوڑ کر پسپا ہو گئیں تھیں، جس سے امریکی ساختہ ہتھیار داعش کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ ان ہتھاروں میں بندوقیں، گولیاں اور ’ہَموی‘ گاڑیوں جیسا دیگر اسلحہ شامل ہے۔

تاہم، گذشتہ 10 ماہ کے دوران، داعش، عراق اور شام میں فوجی اہمیت کے کئی اہم قصبے اور اپنا زیر قبضہ ایک بڑا علاقہ کھو چکا ہے، جب کہ اس دوران اس نے کسی قابل ذکر علاقے پر قبضہ نہیں کیا، جس سے شدت پسندوں کو مزید ہتھیار میسر آتے۔

XS
SM
MD
LG