رسائی کے لنکس

موبائل فون سروس معطل کرنا غیر قانونی ہے: عدالت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے فون سروس بند کرنا خلافِ قانون اور اختیارات سے تجاوز ہے۔

پاکستان کی ایک عدالت نے سکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر موبائل فون سروس معطل کرنے کو غیر قانونی اقدام قرار دیا ہے۔

موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں اور ایک شہری کی طرف سے دائر درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ستمبر میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جو پیر کو جسٹس اطہر من اللہ نے جاری کیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے فون سروس بند کرنا خلافِ قانون اور اختیارات سے تجاوز ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے اہم مواقع خصوصاً مذہبی تہواروں کے موقع پر ملک کے تقریباً سب ہی بڑے شہروں میں موبائل فون سروس عارضی طور پر معطل کی جاتی رہی ہے۔

حکام کے مطابق دہشت گرد موبائل فون کو بم دھماکا کرنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کے باعث احتیاطی تدبیر کے طور پر یہ اقدام کیا جاتا ہے۔

عدالت عالیہ میں دائر درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ موبائل فون سروس معطل کرنا بنیادی حقوق کے منافی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996ء کی خلاف ورزی ہے لہذا اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

عدالت عالیہ نے اس بارے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وفاقی حکومت سے جواب طلب کر رکھا تھا۔

پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ خود یہ اقدام نہیں کرتی بلکہ حکومت کی طرف سے ملنے والی ہدایت پر ہی فون سروس معطل کرتی ہے۔

وفاق کی طرف سے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ حکومت ٹیلی کام ایکٹ کی شق 54 (2) کے تحت سلامتی کے خدشات کے پیشِ نظر فون سروس بند کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

اس شق میں کہا گیا ہے کہ جنگ یا پاکستان کے خلاف کسی بھی مخاصمانہ کارروائی چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی، کی صورت میں ملک کے تحفظ اور سلامتی کے لیے وفاقی حکومت کو کسی بھی مواصلاتی نظام پر مقدم اختیار حاصل ہے۔

جج نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 21 ستمبر 2017ء کو اس معاملے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG