رسائی کے لنکس

تبدیلی مذہب کا الزام، ہائی کورٹ کا کمیشن بنانے کا حکم


انسانی حقوق کے کارکن ہندو لڑکیوں کی مبینہ جبری تبدیلیٔ مذہب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
انسانی حقوق کے کارکن ہندو لڑکیوں کی مبینہ جبری تبدیلیٔ مذہب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سندھ کے ضلع گھوٹکی سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی دو ہندو بہنوں اور ان کے جبری اسلام قبول کرنے کے الزامات پر چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نیوزی لینڈ سے سیکھیں، اقلیتوں کا تحفظ کیسے ہوتا ہے۔

نو مسلم بہنوں کے تحفظ کیس کی سماعت منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مقدمے کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے دورانِ سماعت استفسار کیا کہ سیکریٹری داخلہ اور چیف سیکریٹری سندھ کہاں ہیں؟ سندھ کے مخصوص ضلعے میں ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اسلام اقلیتوں کے تحفظ کا درس دیتا ہے۔ ریاست کا رویہ بہت مایوس کن ہے۔

سماعت کے دوران اسلام آباد انتظامیہ نے دونوں بہنوں - آسیہ اور نادیہ - کو عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا۔ البتہ دونوں بہنوں کے شوہر صفدر علی اور برکت علی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا میں ہمارا تاثر اچھا نہیں جا رہا۔ سمجھ نہیں آ رہی حکومت اس مسئلے کو کیوں حل نہیں کرنا چاہتی۔

سماعت کے دوران وزارتِ داخلہ کے نمائندے نے کہا کہ مجھے کل عدالت حاضری کا حکم نامہ ملا جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اتنی بے حسی؟ نیوزی لینڈ سے سیکھیں اقلیتوں کا تحفظ کیسے ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ کی غیر حاضری پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وفاق کی جانب سے پیش ہونے والے افسر کو کچھ معلوم ہی نہیں۔ کوئی اور بات ہو تو وفاق کے 10، 10 افسر پیش ہوتے ہیں۔

اس دوران رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ رکن قومی اسمبلی ہیں، پارلیمنٹ میں مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملہ میں شفاف طریقے سے انکوائری کی ضرورت ہے۔ انکوائری حکومت کا کام ہے، عدالت نہیں کرسکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ زبردستی مذہب تبدیل نہ ہوا ہو۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ لڑکیاں نابالغ نہ ہوں۔ وہ رپورٹ آجائے تو عدالت اس کو دیکھ لے گی۔

بعد ازاں ہائی کورٹ نے چار ارکان پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیتے ہوئے کراچی سے مفتی تقی عثمانی کو بھی اس میں شامل کرنے کا حکم دیا۔

کمیشن کے دیگر ارکان میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری، خاور رحمان اور ڈاکٹر مہدی حسن شامل ہوں گے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ یہ چار معاونین کمیشن کے تحت کام کرکے رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں گے۔

لڑکیوں کے وکیل عمیر بلوچ ایڈوکیٹ نے اپنا موقف دہرایا کہ ان لڑکیوں نے زبردستی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا، لہٰذا تحفظ فراہم کیا جائے۔ میڈیا میں غلط پروپیگنڈے کے باعث دونوں بہنوں اور شوہروں کی جان کو خطرات ہیں۔

سندھ کے ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی دونوں بہنوں روینا اور رینا نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے مسلمان لڑکوں صفدر اور برکت سے شادیاں کی ہیں۔

لیکن دونوں لڑکیوں کے والدین کا کہنا ہے کہ انہیں جبری مسلمان کیا گیا۔

لڑکیوں کے والد کی گھوٹکی کے مقامی تھانے کے باہر احتجاج کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ کارروائی نہ ہونے تک تھانے کے باہر بیٹھے رہنے کا کہہ رہے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سماعت پر دونوں لڑکیوں کو اسلام آباد کی انتظامیہ کے حوالے کردیا تھا اور ڈسٹرکٹ جج کو ان کی نگرانی کی ہدایت کی تھی۔ کیس کی آئندہ سماعت 11 مئی کو ہوگی۔

XS
SM
MD
LG