رسائی کے لنکس

بشار الاسد قبول ہے لیکن ایران کو شام سے نکلنا ہوگا: اسرائیل


اسرائیلی وزیرِ اعظم نے بدھ کو ماسکو میں روسی صدر سے ملاقات کی۔ (فائل فوٹو)
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے بدھ کو ماسکو میں روسی صدر سے ملاقات کی۔ (فائل فوٹو)

اسرائیلی اہلکار نے بتایا کہ روس نے شام میں تعینات ایرانی فورسز اور اس کی حامی ملیشیاؤں کو اسرائیل کی سرحد سے کم از کم 80 کلومیٹر دور رکھنے کی تجویز دی ہے لیکن اسرائیل ایرانیوں کا شام سے مکمل انخلا چاہتا ہے۔

اسرائیل نے روس پر واضح کیا ہے کہ اسے شام میں صدر بشار الاسد کے برسرِ اقتدار رہنے پر اعتراض نہیں لیکن ماسکو کو شام سے ایرانی فوج اور اس کی ملیشیاؤں کے انخلا کی حمایت کرنی چاہیے۔

اسرائیلی ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے یہ موقف روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سے بدھ کو ماسکو میں ہونے والی ملاقات میں اپنایا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایک اعلیٰ اسرائیلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بدھ کو ہونے والی ملاقات کے دوران اسرائیلی وزیرِ اعظم نے روسی صدر کو یقین دلایا کہ اگر وہ شام سے ایرانیوں کو نکال دیں تو ان کا ملک اسد حکومت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔

تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ترجمان نے نیتن یاہو کی جانب سے پیوٹن کے ساتھ ملاقات میں ایسی کوئی بات کرنے کی تردید کی ہے۔

صدر بشار الاسد خطے میں روس کے قریب ترین اتحادی ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں روس کا واحد فوجی اڈہ شام میں ہی قائم ہے۔

بشار الاسد کے خلاف جاری بغاوت کو دبانے کے لیے روسی فوج 2015ء سے شامی حکومت کی مدد کر رہی ہے اور روس کی اس فوجی مداخلت کے نتیجے میں شامی فوج باغیوں کے زیرِ قبضہ بیشتر علاقوں کو کنٹرول واپس حاصل کرچکی ہے۔

ایران بھی صدر بشار الاسد کی حکومت کا اہم ترین اتحادی ہے جس کی فوج اور حامی ملیشیائیں 2011ء میں شام کی خانہ جنگی کے آغاز سے ہی صدر بشار کی فوجوں کے ساتھ مل کر باغیوں سے لڑائی میں مصروف ہیں۔

لیکن ایران کی شام میں موجودگی پر نہ صرف اسرائیل معترض رہا ہے بلکہ خطے کے بیشتر عرب ملکوں اور امریکہ کو بھی شام میں ایرانی سرگرمیوں پر تشویش ہے۔

شام میں فوجی موجودگی کے باوجود روس نے ان درجنوں اسرائیلی حملوں پر کبھی کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا جن کا نشانہ شامی حکومت کی حامی ایرانی اور لبنانی ملیشیاؤں کے ٹھکانے اور ہتھیاروں کے ذخیرے بنتے رہے ہیں۔

اسرائیلی اہلکار نے 'رائٹرز' کو مزید بتایا ہے کہ روس نے پہلے سے ہی اسرائیل کی سرحد کے نزدیک واقع شامی علاقوں بشمول مقبوضہ گولان ہائیٹس سے ایرانی ملیشیاؤں اور فورسز کو پیچھے دھکیلنا شروع کردیا ہے۔

اسرائیلی اہلکار نے بتایا کہ روس نے شام میں تعینات ایرانی فورسز اور اس کی حامی ملیشیاؤں کو اسرائیل کی سرحد سے کم از کم 80 کلومیٹر دور رکھنے کی تجویز دی ہے لیکن اسرائیل ایرانیوں کا شام سے مکمل انخلا چاہتا ہے۔

اسرائیلی اہلکار کا 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ روس شام میں اسد حکومت کو مستحکم دیکھنا چاہتا ہے جب کہ اسرائیل کی خواہش ہے کہ ایرانی وہاں سے نکل جائیں۔

اہلکار کے بقول اسرائیل اور روس ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے مدِ مقابل بھی آسکتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرکے بھی یہ مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نے ماسکو کا دورہ ایسے وقت کیا ہے جب گولان ہائیٹس کے نزدیکی علاقوں میں شامی فوج کی کارروائیوں کے پیش نظر اسرائیل کی فوج انتہائی الرٹ ہے۔

صدر بشار الاسد کی حامی فوج گولان ہائیٹس کے نزدیک واقع شامی علاقوں میں حکومت مخالف باغیوں کے خلاف پیش قدمی کر رہی ہے۔

گولان ہائیٹس کے شامی علاقے پر اسرائیلی فوج نے 1967ء میں قبضہ کرلیا تھا جسے عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ شامی فوج علاقے کا قبضہ باغیوں سے چھڑانے کے بعد اس کا کنٹرول لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ یا ایران کی حمایت یافتہ دیگر ملیشیاؤں کے حوالے کرسکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG