رسائی کے لنکس

اسرائیلی حملے کے بعد امن کوششوں پر ممکنہ اثرات


ایسا لگتا ہے کہ غزہ کی پٹی کے لیے امدادی سامان لے جانے والے بحری بیڑے پر اسرائیل کے ہلاکت خیز حملے سے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے مذاکرات کو تقویت دینے کی صدر اوباما کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پیر کے تشدد سے، جس میں فلسطینیوں کے کم از کم نو حامی ہلاک ہوئے ہیں، عرب دنیا اور اس کے باہر کے ملکوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور اسرائیل اور ترکی کے تعلقات بحران کا شکار ہو گئے ہیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سامان لے کر غزہ جانے والے جہاز پر اسرائیلی کمانڈوز کا حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جو اسرائیل اور امریکہ دونوں کے لیے خراب ہے ۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یا ہو منگل کے روز وہائٹ ہاؤس میں صدر اوباما سے ملاقات کرنے والے تھے۔ انھوں نے اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے ۔ یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکی کوششوں سے، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ابھی شروع ہی ہوئے ہیں۔

غزہ کی ناکہ بندی 2007 سے جاری ہے جب غزہ پر عسکریت پسند گروپ حماس نے قبضہ کیا تھا۔ اس ناکہ بندی کا مقصد ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور یہودی ریاست پر راکٹوں کے حملوں کو روکنا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ترجمان مارک ریگِو نے کہا ہے کہ بحری ناکہ بندی ان کے ملک کی حفاظت کے لیے ضروری ہے ۔ ’’اگر بحری ناکہ بندی نہ ہوتی، تو غزہ کی پٹی میں مسلسل خطرناک ہتھیار پہنچتے رہتے اور وہ اسرائیلی سویلین آبادی کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوتے۔ اس لیے میں اگر یہ کہوں کہ بحری ناکہ بندی اسرائیل کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔‘‘

اسرائیل نے کہا ہے کہ اس کے کمانڈوز نے اس وقت فائر کھولا جب امدادی جہازوں پر سوار افراد نے ان پر چاقوؤں، لوہے کی سلاخوں اور آتشیں اسلحہ سے حملہ کیا۔

پرائیویٹ انٹیلی جینس فرم اسٹارٹ فار کی تجزیہ کار ریوا بھلا کہتی ہیں کہ بحری بیٹرے میں شامل فلسطینیوں کے حامی کارکن ایک بین الاقوامی جھگڑا کھڑا کرنا چاہتے تھے۔’’اسرائیل ان کے جال میں پھنس گیا۔ اس کے لیے ایک طرف تو غزہ کی ناکہ بندی قائم رکھنے اوراس کے ٹوٹنے کی اجازت نہ دینا اہم تھا اور دوسری طرف ایک بڑی جھڑپ کا خطرہ تھا ۔ اب ہمارے سامنے ایک بڑی مشکل صورتِ حال ہے۔‘‘

توقع ہے کہ اب غزہ کی صورتِ حال پر زیادہ توجہ مرکوز ہو گی۔ غزہ ایک پتلی سی پٹی پر مشتمل ہے جس میں 15 لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔

حماس کی تنظیم اسرائیل کے اپنا وجود قائم رکھنے کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور فلسطینی اتھارٹی کے اختیار سے آزاد ہے جس کا کنٹرول مغربی کنارے پر ہے ۔

شبلی تِلہامی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی حملے کی وجہ سے امن کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششیں، کم سے کم مختصر مدت کے لیے ، زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہیں۔’’اس خطے میں رائے عامہ اب بہت زیادہ مشتعل ہو گئی ہے ۔ اگر آپ اس وقت علاقے کے میڈیا پر نظر ڈالیں جس میں تمام تر توجہ اسی مسئلے پر دی جا رہی ہے تو جو کچھ ہوا ہے اس پر شدید صدمے کا اظہار کیاجا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب عربوں کی حمایت حاصل کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔‘‘

لیکن اسرائیلی حکومت کے ترجمان مارک ریگِو کہتے ہیں کہ اس واقعے کے امن کے عمل پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑیں گے۔’’ہم فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات جاری رکھنے کو تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں۔‘‘

اسرائیلی حملے میں کم از کم چار ترک شہری ہلاک ہوئے ہیں اور اس کارروائی سے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات شدید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ ترکی کے قریبی تعلقات رہے ہیں لیکن کچھ عرصے سے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ اسرائیل کو اس حملے پر سزا دی جانی چاہیئے ۔ انھوں نے اس حملے کو قتلِ عام کا نام دیا۔

اسٹارٹ فار کی تجزیہ کار ریوا بھلا کہتی ہیں کہ ترکی مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں کہیں زیادہ سرگرمی سے حصہ لے رہا ہے اور وہ فلسطینیوں کے موقف کی جس طرح حمایت کر رہا ہے اس سے ملک کی ساکھ بہتر بنانے میں مدد مل رہی ہے۔ ’’ترکی اس معاملے میں کس حد تک جا سکتا ہے؟ کیاں وہ واقعی اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور تعاون ختم کر دے گا؟ ہمیں اس چیز پر کڑی نظر رکھنی ہو گی اور دوسری بات یہ دیکھنی ہو گی کہ کیا اسرائیل کی حکومت اس بحران کے بعد باقی بھی رہ سکے گی یا نہیں؟‘‘

فلسطینیوں کے حقوق کے لیے جد وجہد کرنے والے کارکنوں نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی ایک اور کوشش کریں گے۔

XS
SM
MD
LG