رسائی کے لنکس

اسرائیلی قیدی کی رہائی کے لیے اسرائیل ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کرنے پر تیار


اسرائیلی قیدی کی رہائی کے لیے اسرائیل ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کرنے پر تیار
اسرائیلی قیدی کی رہائی کے لیے اسرائیل ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کرنے پر تیار

اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا سمجھوتہ طے پاگیا ہے جس کےتحت ایک مغوی اسرائیلی فوجی کی رہائی کے بدلے ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے۔

اسرائیل کے وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے منگل کی شب اسرائیلی ٹیلی ویژن پر مصر کی کوششوں سے طے پانے والے معاہدے کا اعلان کیاجس کے بعد اسرائیلی کابینہ نے اپنے ایک اجلاس میں منصوبے کی بھاری اکثریت سے منظوری دیدی۔

اپنے خطاب میں اسرائیلی وزیرِاعظم نے امید ظاہر کی کہ اگر معاہدہ پر منصوبے کے مطابق عمل درآمد کیا گیا تو مغوی اسٹاف سارجنٹ گیلاڈ شالیث آئندہ چند روز میں اپنے گھر پہنچ جائے گا۔

شام میں مقیم حماس کے 'پولٹ بیورو' کے سربراہ خالد مشعل نے بھی معاہدہ طے پانے کی تصدیق کی ہے ۔ اسرائیلی جیلوں سے سینکڑوں فلسطینیوں کی رہائی کی خبر پھیلنے کے بعد ان افراد کے اہلِ خانہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ فلسطینی علاقوں خصوصاًغزہ کی پٹی میں جشن منایا جارہا ہے۔

خالد مشعل کے مطابق اسرائیلی حکومت مغوی فوجی کے بدلے میں 1027 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہوگئی ہے۔

اسرائیل کے اعلیٰ ترین سیکیورٹی عہدیدار یورام کوہن نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ رہا کیے جانے والے قیدیوں میں اہم فلسطینی رہنما مروان برغوتی اور ایک فلسطینی دھڑے کے سربراہ احمد سادات بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی عہدیدار کے بقول یہ دونوں افراد بدستور اسرائیلی تحویل میں رہیں گے۔

مروان برغوتی کو 2002ء میں حراست میں لیا گیا تھا اور وہ اسرائیلیوں کے خلاف کئی ہلاکت خیز حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ برغوتی کا نام فلسطین کے صدرمحمود عباس کے ممکنہ جانشین کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔

احمد سادات کو 2001ء میں ایک اسرائیلی وزیر کے قتل کی سازش تیار کرنے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔

فلسطینی مزاحمت کاروں نے جون 2006ء میں کیے گئے ایک سرحد پار حملے کے دوران اسرائیلی فوجی گیرالڈ شالیث کو اغوا کرکے غزہ منتقل کردیا تھا۔ مغوی فوجی کی طویل گمشدگی اسرائیل – فلسطین تنازعہ کا ایک اہم نکتہ رہی ہے۔

اسرائیلی وزیرِاعظم کی جانب سے معاہدے کے اعلان کے بعد درجنوں اسرائیلی شہر نیتن یاہو کے دفتر کے باہر خیمہ میں قائم اس احتجاجی کیمپ پر جمع ہوگئے جو شالیث کے والدین نے اپنے بیٹے کی رہائی کے مطالبہ کے حق میں قائم کر رکھا ہے۔

مغوی فوجی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے اہلِ خانہ کی خوشی ناقابلِ بیان ہے تاہم وہ اپنے جذبات پر اس وقت تک قابو رکھیں گے جب تک ان کا بیٹا اپنے گھر نہیں پہنچ جاتا۔

اسرائیلی کابینہ میں رائے شماری کے دوران تین وزراء نے حماس کے ساتھ طے پانے والے مجوزہ معاہدہ کے خلاف ووٹ دیا جن میں سے ایک وزیر اوزی لنڈائو کا کہنا ہے کہ اس معاہدہ سے مستقبل میں اغوا کے ذریعے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

دریں اثنا واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے چار فریقی ثالثی گروپ نے اسرائیل اور فلسطین سے 23 اکتوبر کو اردن میں مذاکرات کرنے کی درخواست کی ہے۔

نولینڈ نے صحافیوں کو بتایا کہ مذکورہ درخواست گروپ کے سفارت کاروں کے اتوار کو ہونے والے اجلاس کے بعد کی گئی ہے۔ ترجمان کے بقول امریکہ – جو روس، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کے ساتھ اس گروپ کا حصہ ہے – کو امید ہے کہ فریقین یہ درخواست قبول کرلیں گے۔

اس سے قبل منگل کو فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان مغربی کنارے کے شہر راملہ کے ایک جیل کے نزدیک جھڑپیں ہوئی تھیں۔

مظاہرین جیل میں موجود ان فلسطینی قیدیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جمع ہوئے تھے جنہوں نے جیل کی خراب صورتِ حال پر بطورِ احتجاج بھوک ہڑتال کر رکھی ہے۔

اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل برسائے جس پر جواباً مظاہرین نے پتھرائو کیا۔ جھڑپوں میں کئی افراد زخمی ہوئے ہیں۔

دو ہفتے قبل شروع ہونے والی اس بھوک ہڑتال میں اب تک سینکڑوں فلسطینی قیدی شریک ہوچکے ہیں۔واضح رہے کہ اسرائیلی جیلوں میں مختلف الزامات کے تحت چھ ہزار سے زائد فلسطینی قید ہیں۔

XS
SM
MD
LG