رسائی کے لنکس

اٹلی میں ٹک ٹاک کے مبینہ چیلنج میں حصہ لینے والی لڑکی کی موت، تحقیقات شروع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یورپ کے ملک اٹلی میں حکام نے سوشل میڈیا ایپ 'ٹک ٹاک' پر ہونے والے 'بلیک آؤٹ' چیلنج میں مبینہ طور پر حصہ لینے والی 10 سالہ لڑکی کی حادثاتی موت کے بعد تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق لڑکی کی موت پلرمو اسپتال میں ہوئی۔ جسے بدھ کو اس کی پانچ سالہ بہن نے اپنے گھر کے باتھ روم میں اس کے موبائل فون کے ساتھ پایا تھا۔ پولیس نے موبائل فون تحویل میں لے لیا ہے۔

ٹک ٹاک، جو چینی کمپنی 'بائٹ ڈانس' کی ملکیت ہے، کا جمعے کو کہنا تھا کہ اسے اپنے پلیٹ فارم پر کوئی ایسا مواد نہیں ملا۔ جس نے لڑکی کی اس طرح کے کسی چیلنج میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی ہو۔

تاہم کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ حکام کی اس بارے میں کی جانے والی تحقیقات میں مدد کر رہی ہے۔

لڑکی کے والدین کا مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ان کی دوسری بیٹی نے انہیں بتایا کہ اس کی بہن بلیک آؤٹ گیم کھیل رہی تھی۔

لڑکی کے والد کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ ان کی بیٹی اس گیم میں حصہ لے رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں یہ تو معلوم تھا کہ ان کی بیٹی ڈانس ویڈیوز دیکھنے کے لیے ٹک ٹاک استعمال کرتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ وہ ایسا کر سکتی ہے؟۔

ٹک ٹاک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک برادری کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے اور وہ کسی بھی ایسے مواد کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے جس سے خطرناک رجحانات تقویت پاتے ہوں۔

پاکستان میں ٹک ٹاک بحال، ٹک ٹاکرز کے کیا ارادے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:12 0:00

دوسری طرف طبی ماہرین کی طرف سے ایسے چیلنجز سے متعلق خبردار کیا گیا ہے جس میں صارفین کو دماغ کو پہنچنے والی آکسیجن کو روکنے کا چیلنج کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ اٹلی کی ڈیٹا پروٹیکشن ایجنسی نے ٹک ٹاک کے خلاف گزشتہ برس دسمبر میں ایک کیس دائر کیا تھا۔ جس میں ایجنسی کی طرف سے ٹک ٹاک کو کم عمر صارفین کی طرف سے باآسانی استعمال کیے جانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ٹک ٹاک کو 2018 میں شارٹ ویڈیوز کی وجہ سے عالمی پذیرائی ملی تھی۔

اٹلی میں لڑکی کی موت کے بعد سخت ردِ عمل سامنے آ رہا ہے اور سماجی رابطوں سے متعلق سخت قواعد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اٹلی میں بچوں کی حفاظت سے متعلق پارلیمانی کمیشن کی صدر لیسیا رونزولی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا جنگل نہیں بن سکتا جہاں ہر چیز کی اجازت ہو۔

XS
SM
MD
LG