رسائی کے لنکس

اسلام آباد ہائی کورٹ: سائفر کیس کی سماعت اوپن کورٹ میں کرنے کا حکم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کی سماعت اوپن کورٹ میں کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سائفر کیس کی ان کیمرہ سماعت کرنے کی درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے بدھ کو فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوط فیصلہ سناتے ہوئے ایف آئی اے کی درخواست نمٹا دی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دورانِ سماعت وکلا جن معلومات کی نشاندہی کریں گے اس کی سماعت اِن کیمرہ ہوگی۔

واضح رہے کہ سائفر کیس کی سماعت نو اکتوبر کو ہونی ہے جس کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ نو اکتوبر کو سماعت اوپن کورٹ میں ہو گی۔

فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ دوران سماعت وکلا جن معلومات کی نشاندہی کی جائے گی اس کی سماعت اِن کیمرہ ہو گی۔

سائفر کیس کی سماعت بغیر کارروائی کے نو اکتوبر تک ملتوی

قبل ازیں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم سائفر کیس کی سماعت خصوصی عدالت نے بغیر کسی کارروائی کے نو اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین سائفر کیس کی سماعت کے لیے بدھ کی صبح اڈیالہ جیل پہنچے جب کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا بھی جیل آئے۔

تحریکِ انصاف کے وکیل سلمان صفدر کی جانب سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج سے استدعا کی گئی کہ اس کیس کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر مقدمات کے فیصلے آنے تک سماعت مؤخر کی جائے۔

سلمان صفدر کے مطابق انہوں نے سائفر کیس کی اِن کیمرہ سماعت اور جیل میں سماعت کے معاملے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا ان دونوں کیسز پر فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے۔ یہ فیصلہ آنے تک کیس کی سماعت بلاجواز ہے۔

پی ٹی آئی کے وکلا کی استدعا پر جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس پر سماعت بغیر کسی کارروائی کے نو اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

قبل ازیں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ آج کی کارروائی کے دوران ملزمان کو کیس کے چالان کی نقول حوالے کی جانی ہیں۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کی نو اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ملزمان کو چالان کی نقول فراہم کی جائیں گی۔

خیال رہے کہ سائفرکیس کی جیل میں سماعت کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 12 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جب کہ اس کیس کی اِن کیمرہ سماعت کے خلاف دائر درخواست پر دو دن قبل دو اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔ البتہ یہ دونوں محفوظ فیصلے اب تک جاری نہیں ہوئے۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے اس کیس کی گزشتہ سماعت 14 ستمبر کو اٹک جیل میں کی تھی۔ بعد ازاں 25 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم کو اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد عمران خان کو اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تھا۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی دونوں اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ جہاں سائفر کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت کے جج پہنچے تھے۔

گزشتہ سماعت پر عدالت نے کیس کے تیسرے ملزم اسد عمر کی درخواستِ ضمانت 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض منظور کر لی تھی۔ تاہم سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔

سائفر کیس کیا ہے؟

عمران خان نے گزشتہ برس اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار امریکہ کو قرار دیتے ہوئے اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک خط لہرایا تھا جو ان کے مطابق وہ مبینہ سائفر تھا جو پاکستانی سفیر نے امریکہ سے بھیجا تھا جس میں مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے ان کی حکومت کو ہٹانے کا کہا گیا تھا۔

امریکہ اس بارے میں عمران خان کے تمام الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔امریکی محکمۂ خارجہ کی پریس بریفنگزمیں بھی اس بارے میں متعدد بار پوچھے گئے سوالات میں عمران خان کے الزامات کو مسترد کیا گیاہے۔

اپریل 2022 میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔

عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس سائفر کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے حکومت ختم کرنے کی سازش کی۔ بعد ازاں انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس سازش میں شامل قرار دیا۔

اس سائفر کی تحقیقات کا آغاز شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے ایف آئی اے کے ذریعے کیا تھا۔

اس کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان، سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر نامزد ہیں۔

XS
SM
MD
LG