رسائی کے لنکس

جمشید دستی کی چیرہ دستیاں


جمشید دستی کی چیرہ دستیاں
جمشید دستی کی چیرہ دستیاں

عدالت: آپ نے اسلامیات میں ایم اے کیا ہے، قرآن کی پہلی دو سورتوں کے نام بتا دیں۔

رکن قومی اسمبلی: معلوم نہیں

عدالت: آپ کے نصاب میں کون کون سے مضامین شامل تھے؟

رکن قومی اسمبلی: معلوم نہیں

عدالت: چار دونی کتنے ہوتے ہیں؟

رکن قومی اسمبلی: معلوم نہیں

یہ مکالمہ کسی مزاحیہ ڈرامے سے نہیں لیا گیا، بلکہ اس سے ملتا جلتا واقعہ حقیقی زندگی میں جمعرات 25 مارچ 2010ء کے روز پیش آیا۔ اس حقیقی ڈرامے کے کردار رکنِ اسمبلی تھے مظفر گڑھ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے جمشید دستی، جو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کھیل کے چیرمین بھی تھے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ یہ وہی جمشید دستی ہیں جنہوں نے سری لنکا میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکست کے بعد چھوٹتے ہی الزام جڑ دیا تھا کہ ٹیم نے سٹہ کھیلا ہے۔ اسی الزام کی بنا پر ٹیم کے کپتان یونس خان اور کوچ انتخاب عالم کو سینیٹ کے سامنے پیش ہو کر صفائی دینا پڑی تھی، اور اسی توہین آمیز رویے سے دل برداشتہ ہو کر یونس خان نے کپتانی سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

جمعرات کے روز اسلام آباد میں جسٹس افتخار احمد کی قیادت میں سپریم کورٹ کا بنچ اس نتیجے پہنچا کہ جمشید دستی نے الیکشن کمیشن میں جعلی ڈگری پیش کی تھی، اس لیے وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل ہیں۔ عدالت نے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا، جو دستی صاحب نے فوراً مان لیا اور اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

کہا جاتا ہے کہ حقیقی زندگی افسانے سے زیادہ سنسنی خیز ہوتی ہے۔ آپ نے شاید اطہر شاہ خان کا مشہور ڈراما ’باادب باملاحظہ ہوشیار‘دیکھا ہو۔ لیکن سپریم کورٹ میں پیش آنے والے اس ڈرامے کے آگے اطہر شاہ خان کا ڈراما پھسپھسا سا لگتا ہے۔ اگر آپ کو یہ ڈراما یاد نہیں تو میں یاد دلا دیتا ہوں:

بادشاہ سلامت اپنے وزیروں کا دستخط شدہ مراسلہ ملاحظہ کرتے ہیں:

تنخواہ وزیر ثقافت، پچاس اشرفیاں، دستخط موجود
تنخواہ وزیر اطلاعات، پچاس اشرفیاں، دستخط موجود
اور یہ ۔۔۔۔ یہ نشان انگوٹھا کس کا ہے؟

وزیر تعلیم کا ۔۔۔۔

جمشید دستی کی عدالت میں یہ ڈرامائی پرفارمنس کوئی نئی بات نہیں ہے، وطنِ عزیز میں اس سے ملتے جلتے ڈرامے بہت عرصے سے حقیقی زندگی میں کھیلے جا رہے ہیں۔ اسی قسم کے ایک اور ڈرامے کا احوال سنیئے۔

1990ء سے 1993ء تک صوبہٴ سرحد کے وزیرِ تعلیم یوسف خان ترند کورے ان پڑھ تھے!

یہ انکشاف کوئی سنی سنائی بات نہیں ہے، بلکہ صوبہ سرحد کے ضلع بٹگرام سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیرِ تعلیم یوسف خان ترند نے بدعنوانی کے مقدمے میں عدالت میں کھڑے ہو کر بیان دیا تھا کہ میں تو ان پڑھ ہوں، مجھے کیا پتا کہ میرے افسر مجھ سے کن کاغذوں پر دستخط کروا کر لے جاتے ہیں!

خیر، جمشید دستی صاحب وزیرِ تعلیم تو نہیں بن سکے، لیکن انہوں نے کھیلوں کی قائمہ کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے بھی خوب نام کمایا۔ ان کی کرکٹ بورڈ کے چیرمین اعجاز بٹ سے رسہ کشی اخبارات کی زینت بنتی رہی ہے۔ حتیٰ کہ تنگ آ کر اعجاز بٹ کو یہ کہنا پڑا تھا کہ جمشید دستی پاکستان کرکٹ کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ ادھر جمشید دستی نے اعجاز بٹ کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میرے پاس اختیار ہوتا تو اعجاز بٹ جیل میں ہوتے۔

تاہم آج دستی صاحب خود جیل جاتے جاتے بچے، اور قسمت اچھی تھی کہ عدالت نے صرف استعفے ہی پر اکتفا کی، ورنہ ان کے خلاف جعل سازی کا مقدمہ بھی قائم کیا جا سکتا تھا۔

سپریم کورٹ میں کھیلے جانے والے اس ڈرامے کی ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے۔ اور وہ یہ کہ جمشید دستی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اسلامیات میں ایم اے کیا تھا۔ اس سے ہمیں ایک اور واقعہ یاد آ گیا۔

مڈل سکول کے ایک استاد کو خاصی عمر گزرنے کے بعد پرائیویٹ ایم اے کرنے کی سوجھی۔ نگہِ انتخاب اسلامیات پر پڑی، کہ انہیں سب سے آسان مضمون یہی معلوم ہوا ہو گا۔ پرچہ دینے گئے تو رواجِ عام کے طور پر نقل کا پلندا بھی ساتھ لیتے گئے۔

کچھ دیر کے بعد ممتحن نے اس بزرگِ باریش کو نقل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ بولے، شرم نہیں آتی، اسلامیات کے پرچے میں بھی نقل کر رہے ہو؟

استاد صاحب چمک کر بولے، ’ارے بھئی نقل کون کر رہا ہے؟ دراصل یہ قرآن حدیث کا معاملہ ہے، خود سے لکھوں گا تو غلطی کر بیٹھوں گا، اس لیے مدد کے لیے کچھ کاغذ ساتھ لیتا آیا تھا۔‘

خیر، ہم جمشید دستی کو یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اگر انہوں نے جعل سازی کرنی تھی تو اسلامیات کی بجائے کسی اور مضمون میں کرتے، لیکن یہ مشورہ ضرور دے سکتے ہیں کہ اگر آپ جعل سازی ہی کر کے آئے تھے تو خاموشی سے اپنی مدت پوری کرتے، اس دوران اس قدر ہنگامہ کھڑا کر کے ساری قوم کی نظروں میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟

XS
SM
MD
LG