رسائی کے لنکس

جاوید ہاشمی، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ


جاوید ہاشمی، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ
جاوید ہاشمی، تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ

یہ پیش رفت پاکستان تحریک انصاف کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے۔ کیا اِس سے پارٹی پرتنقید یا الزام کی تردید ہو جائے گی کہ پارٹی کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، خاص طور پر خفیہ ایجنسیوں کی، حمایت حاصل ہے؟

میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد مسلم لیگ نواز کی قیادت کرنے والے اور اپنی سیاسی وابستگی پر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے، مسلم لیگ کے سینئر راہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے ’ہاں میں باغی ہوں‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

جاوید ہاشمی اور عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ کسی عہدے کے لیے نہیں بلکہ نظریے کی بنیاد پر پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔

یہ پیش رفت پاکستان تحریک انصاف کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے؟ کیا اِس سے پارٹی پرتنقید یا الزام کی تردید ہو جائے گی کہ پارٹی کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، خاص طور پر خفیہ ایجنسیوں کی، حمایت حاصل ہے؟ مسلم لیگ نواز کے لیے جاوید ہاشمی کا جانا کتنا بڑادھچکہ ہے؟ اور کیا ایسے سیاسی راہنماوٴں کو فیصلے کرنے میں آسانی ہو گی جو تحریک انصاف میں شمولیت کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں؟

’وائس آف امریکہ‘ کے اردو ریڈیو کے پروگرام ’اِن دا نیوز‘ میں یہ سوالات مبصرین اور سیاسی راہنماوٴں کے سامنے رکھے گئے۔

مسلم لیگ نواز کےسینئر راہنما راجہ ظفرالحق نے کہا کہ جاوید ہاشمی قابل احترام ساتھی تھے۔ اُنہیں اور اُن کے خاندان کے افراد کو پارٹی کے اندر بے حدعزت دی گئی، ’ معلوم نہیں، اُنہوں نے یہ فیصلہ کیونکر کیا؟‘

اُن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے فلسفے میں کوئی ایسی بات نہیں کہ جاوید ہاشمی جیسے راہنما اُس پارٹی میں شمولیت اختیار کریں، البتہ، عمران خان کی شخصیت اور تیسرے راستے کا پیدا ہونا اہم ہیں۔

نوازلیگ کے ہی ایک اور راہنما صدیق الفاروق کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی پارٹی قیادت سے اس بات پر ناراض تھے کہ اُنہیں حزب اختلاف کا قائد نہیں بنایا گیا۔

اُن کے بقول، ہاشمی صاحب اے پی ڈی ایم سمیت مختلف فورمز پر ثابت کر چکے ہیں کہ وہ دوسروں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے۔ اِس لیے، اُن کو حزب اختلاف کا قائد نہ بنانے کا فیصلہ درست تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ عمر کے اِس حصے میں جب جاوید ہاشمی زیادہ چاق و چوبند نہیں رہے، اِس لیے وہ تحریک انصاف کو تنظیم بندی میں کوئی مدد نہیں دے سکتے۔ البتہ، صدیق الفاروق یہ ضرور مانتے ہیں کہ جاوید ہاشمی کی شمولیت تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ میں اضافہ کرے گی۔

فاروق عادل، کراچی میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جاوید ہاشمی کے تحریک انصاف میں آنے سے پارٹی کے خلاف اُس پروپیگنڈا کو زائل کرنے میں مدد ملے گی کہ پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔

البتہ، اُن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف میں اگر بڑے راہنما اِس خیال سے شامل ہو رہے ہیں کہ وہ اِس فورم سے پارٹی کی اعلی قیادت سنبھال سکیں گے، تو ایسا نہیں ہو گا۔ اُن کے بقول، عمران کبھی اپنی جگہ کسی کو نہیں دیں گے۔

سیاسیات کے پروفیسر اور تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس، فاروق عادل کے اِس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ باقی پارٹیوں، خاص طور پر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی جماعتوں سے، دل اچاٹ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ وہ موروثی سیاست کی علمبردار ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ تحریک انصاف سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ میرٹ پر لوگوں کوقیادت کا موقع فراہم کرے گی اور پارٹی کو ایک ادارہ بنایا جائے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا، تو تنقید کی توپوں کا رُخ کل عمران خان کی جانب ہو گا۔

رسول بخش رئیس کے مطابق، جاوید ہاشمی کی شمولیت ایک فرد کی نہیں، بلکہ ایک سوچ کی تحریک انصاف میں شمولیت ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی میردوست محمد مزاری کہتے ہیں کہ جاوید ہاشمی بہت بڑے سیاستدان ہیں اور اُن کا تحریک انصاف میں جانا معنی رکھتا ہے۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جوڑ توڑ کا حقیقی نتیجہ تو انتخابات میں ہی سامنے آئے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی سکریٹری جنرل، عمران اسماعیل نے کہا کہ جاوید ہاشمی کی پارٹی میں شمولیت پر اُن کے راہنما اور قائدین بے حد خوش ہیں اور اِسے بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما اعتزازاحسن اور تمام سیاسی جماعتوں کے نیک نام قائدین کو پارٹی میں شمولیت کی کھلی دعوت دی گئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اتوار کو کراچی میں تاریخی جلسہ ہوگا۔

فاروق عادل، جو کراچی میں مقیم ہیں، انہوں نے بتایا کہ شہر ایک بڑے جلسے کے آثار دیکھتا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ کا جلسے کے لیے ’فری ہینڈ‘ دینا بڑی تعداد میں لوگوں کے جلسہ گاہ پہنچنے کا سبب بن سکتا ہے۔

امریکہ میں پپپلزپارٹی کے نائب صدر اور سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو کے قریبی ساتھی جاوید راٹھور نے ملک میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور خاص طور پر جاوید ہاشمی کے نواز لیگ کو چھوڑنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واضح پیغام ہے اُن سیاسی جماعتوں کے لیے جو کارپوریشن میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں اور موروثی سیاست کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلیاں سیاسی آمریت پر مائل سیاسی جماعتوں کی قیادت کے خلاف عدم ِاعتماد ہیں۔ اُن کے بقول، سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر بھی جمہوری نظام قائم کرنا ہو گا۔

XS
SM
MD
LG