رسائی کے لنکس

برطانوی اقلیتیں، مسابقت میں امتیازی سلوک درپیش: رپورٹ


محققین نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ برطانیہ میں رہنے والی 14 نسلی و مذہبی گروہوں میں سے مسلمانوں کے لیے ملازمت حاصل کرنا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے

ایک نئی تحقیق کے مطابق، مسلمانوں کو ملازمت حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کے کسی بھی دوسرے اقلیتی گروہ کے مقابلے میں سب سے زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر، مسلمانوں کےلیےملازمت کی جگہوں پر انتظامی عہدہ حاصل کرنے کا امکان دیگر نسلی یا مذہبی کمیونٹی کے مقابلے میں سب سےکم ہوتا ہے۔

محققین نے اپنے تجزیہ میں 'دفترقومی شماریات' کے پانچ لاکھ سے زائد برطانوی افراد پر مشتعمل 'لیبر فورس سروے' کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ جلد کی رنگت ان دنوں مذہبی امتیازکی نسبت کم اہم ہے اور, ایک خاصیت کے طور پر یہ امتیازی سلوک کی طرف متوجہ کرتی ہے۔

برسٹل یونیورسٹی سے منسلک محققین ڈاکٹر رون جانسن اور ڈاکٹر نبیل الخطاب نے کہا کہ ایک مسلمان مرد کے لیے اپنے ہم عمر اور ایک ہی جیسی قابلیت رکھنے والے سفید فام برطانوی کے مقابلے میں ملازمت حاصل کرنے کا امکان 76 فیصد کم ہوتا ہے، اور ایک مسلمان خاتون کے لیے اپنی ہم منصب کے مقابلےمیں ملازمت حاصل کرنےکا امکان 65 فیصد سے زیادہ کم ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ، ’اگر یہ صورت حال اسی طرح برقرار رہتی ہے تو برطانیہ کے کثیر الثقافتی معاشرے کی ہم آہنگی کو اپنی لپیٹ میں لےسکتی ہے، ایک بہتر تعلیم یافتہ سیاہ فام یا مسلمان افراد کا اخراج، اس کی وسیع معاشرے میں ضم ہونے کی خواہش کو کمزورکرسکتا ہے۔'

برطانوی اخبار 'انڈیپینڈنٹ' کی رپورٹ کے مطابق، مطالعے سے محققین نے نتیجہ اخذ کیا کہ برطانیہ میں رہنے والی14 نسلی و مذہبی گروہوں میں سے مسلمانوں کے لیے ملازمت حاصل کرنا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر نبیل الخطاب اس امتیازی سلوک کی ممکنہ وجوہات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ، 'صورت حال یہ تھی کہ برطانیہ کے نسلی اور ثقافتی نظام میں مسلمانوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی نفرت کی وجہ سے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو ملازمتوں پر حد درجہ کم نمائندگی ملنے کا امکان تھا۔'

ڈاکٹر نبیل الخطاب نے کہا کہ، 'انھیں ایک پسماندہ اقلیت تصور کرنے کے بجائے ایک غیر وفادار اور خطرہ سمجھا جا رہا تھا.'

'اس ماحول کے اندر زیادہ تر آجر تعلیم یافتہ مسلمانوں کو ملازمت دینے کی حوصلہ شکنی کریں گے خاص طور پر جب وہ ان کے گروہ سےنہیں ہویا پھر وہ کسی ایسے گروہ کا فرد ہےجوخطرہ نہیں اسے نوکری دینا زیادہ آسان ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ،'ایک مسلمان ہونے کا جرمانہ اس وقت اور بھی زیادہ بھرنا پڑتا ہے جب انتظامی عہدوں کی زیادہ تنخواہ پانے والی نوکریوں کے لیے درخواست بھیجی جاتی ہے۔'

مطالعے کے نتائج کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ برطانیہ میں کسی بھی اقلیتی گروہ کے مقابلے میں پاکستانی مسلمان خواتین کے لیےملازمت حاصل کرنے کا امکان 65 فیصد کم ہوتا ہے بھارتی مسلمان خواتین کے لیے 55فیصد بنگلہ دیشی خواتین کے لیے 51 فیصد اور سفید فام مسلم خواتین کے لیے 43 فیصد کم ہوتا ہے۔

اسی طرح کسی بھی گروپ سے تعلق رکھنے والے 76 فیصد برطانوی مسلمان مردوں کے پاس ملازمت کرنےکا امکان نہیں تھا۔ ان میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کے لیے 66 فیصد، سفید فام مسلمانوں کے لیے64 فیصد، پاکستانی مسلمانوں کے پاس59 فیصد اور بھارتی مسلمانوں کے لیے ملازمت حاصل کرنے کا امکان 37 فیصد کم ہوتا ہے۔

'سوشل سائنس رسالے' میں شائع ہونے والے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ سفید فام عیسائیوں کے بعد، اقلیتی گروہوں میں سب سے زیادہ برطانوی یہودیوں کے پاس ملازمت حاصل کرنے کا امکان تھا، جن میں کسی بھی اقلیتی گروہ کے مقابلے میں مردوں کے لیے 29 فیصد اور خواتین کے لیے15 فیصد زیادہ مواقع تھے۔

مطالعے کے نتائج سے یہ بھی واضح ہوا کہ جو لوگ کام کر رہے تھےان میں سے 23 فیصد بنگلہ دیشی اور 27 فیصد پاکستانی مسلمان تنخواہ دار ملازمتوں پر تھے، جبکہ آئرش سفید فام اور بھارتی ہندو بالترتیب 53 اور 51 فیصد تنخواہ دار ملازمتوں پر تھے۔

ڈاکٹر نبیل الخطاب نے کہا کہ، 'اس امتیاز کا ایک اہم جزو جلد کی رنگت، ثقافت یا مذہب تھی۔ لیکن، اگر سفید رنگت ہی ملازمت حاصل کرنے کے لیے اہم ہوتی تو سفید فام مسلمان ہونے کے ناطے اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی اسی طرح سیاہ رنگت رکھنا، مثلا بھارتی ہندووں کے لیے ہمیشہ ان کی رنگت نقصان کی وجہ نہیں ہوتی ہے۔'

XS
SM
MD
LG