رسائی کے لنکس

بائیڈن، مودی ٹیلی فونک رابطہ: دونوں رہنماؤں کے درمیان کیا گفتگو ہوئی؟


بھارتی وزیر اعظم نے 2014 میں واشنگٹن ڈی سی میں جو بائیڈن سے ملاقات کی تھی۔
بھارتی وزیر اعظم نے 2014 میں واشنگٹن ڈی سی میں جو بائیڈن سے ملاقات کی تھی۔

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے منگل کی شب [غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق] امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن سے ٹیلی فون پر گفتگو کر کے اُنہیں اور کاملا ہیرس کا مبارک باد دی ہے۔

امریکی صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کی غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کامیابی کے بعد دونوں رہنماؤں کا یہ پہلا رابطہ تھا۔

بھارتی حکام کے مطابق جو بائیڈن نے نریندر مودی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھارت اور امریکہ دو طرفہ تعلقات کو مزید آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا۔

نریندر مودی نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ "ہم نے بھارت امریکہ اسٹرٹیجک شراکت داری کے اپنے عہد کا اعادہ کیا اور کرونا وبا، آب و ہوا کی تبدیلی اور انڈوپیسفک خطے میں تعاون کے سلسلے میں تبادلۂ خیال بھی کیا۔"

انہوں نے یہ بھی کہا کہ نائب صدر کے منصب پر کاملا ہیرس کا انتخاب بھارتی امریکی برادری کے لیے باعثِ فخر ہے۔

جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کی ٹیم نے ایک بیان میں کہا کہ نو منتخب صدر نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بات چیت میں مبارکباد دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور بھارت امریکہ اسٹرٹیجک شراکت داری کو مزید وسیع اور مضبوط کرنے کی خواہش طاہر کی۔

بیان میں کہا گیا کہ جو بائیڈن کرونا وبا، معاشی چیلنجز، آب و ہوا کی تبدیلی اور جمہوری قدروں کے فروغ اور انڈوپیسفک معاملات پر مودی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہاں ہیں۔

یاد رہے کہ نریندر مودی نے آخری بار 30 ستمبر 2014 کو جو بائیڈن سے واشنگٹن میں ملاقات کی تھی۔

ایک سابق سفارت کار اور سینئر تجزیہ کار پربھو دیال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں رہنماؤں کی بات چیت اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ملکوں کے رشتے بہت مضبوط ہیں اور یہ مزید آگے بڑھیں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بھارت امریکہ رشتوں کو امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 1978 میں امریکی صدر جمی کارٹر بھارت کے دورے پر آئے تھے۔ اس کے بعد 22 سال تک کوئی امریکی صدر بھارت نہیں آیا۔ اس کے بعد 2000 میں صدر بل کلنٹن آئے، 2006 میں جارج بش آئے 2010 میں صدر براک اوباما آئے۔ اس کے بعد 2015 میں دوبارہ براک اوباما آئے اور پھر 2020 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کا دورہ کیا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا بہترین دوست قرار دیتے رہے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا بہترین دوست قرار دیتے رہے ہیں۔

پربھو دیال نے کہا کہ ایک طرف 22 سال تک امریکہ کا کوئی صدر بھارت کے دورے پر نہیں آیا وہیں 20 سال میں پانچ امریکی صدور کے دورے اس بات کا مظہر ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوط ہوئے ہیں اور مزید آگے بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کو چین سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ اس کے فوجی ہماری سرحد کے اندر گھس آئے ہیں۔ ان حالات میں دونوں رہنماوں نے انڈو پیسفک خطے پر بات کی۔

پربھو دیال کے مطابق بھارت کے ساتھ امریکہ کے جو دفاعی معاہدے ہوئے ہیں اس سے مجھے یقین ہے کہ آگے کچھ اور قدم بڑھائے جا سکتے ہیں۔

اُن کے بقول "ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں امریکہ سے تیکنیکی معاونت ملے۔ امریکہ کے پاس بہترین دفاعی ٹیکنالوجی ہے۔ بھارت امریکہ سے کچھ اور چیزیں خریدنا چاہے گا تاکہ چین کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے۔

ایک دوسرے تجزیہ کار آلوک موہن کہتے ہیں کہ جو بائیڈن کی حکومت آنکھ بند کر کے بھارتی حکومت پر بھروسہ نہیں کرے گی۔ خاص طور پر انسانی حقوق کے معاملات اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بھارت کو کچھ پریشانی ہو سکتی ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے رشتے بہت مستحکم ہیں اور وہ بائیڈن دور میں بھی مزید آگے جائیں گے۔

بھارت کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی پائی جاتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ رواں برس صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کا دورہ بھی کیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG