رسائی کے لنکس

جو بائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی اُمیدواروں کی دوڑ میں شامل


جو بائیڈن، فائل فوٹو
جو بائیڈن، فائل فوٹو

امریکہ کے سابق نائب صدر جو بائیڈن نے 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔

وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے میدان میں اترنے والے لگ بھگ 22 اُمیدواروں کے ہجوم میں سب سے نمایاں ہیں۔ بائیڈن سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں دو مرتبہ نائب صدر رہے ہیں۔

یہ تیسرا موقع ہے کہ جو بائیڈن نے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اس سے قبل 1988ء اور 2008ء کے صدارتی انتخابات میں بھی قسمت آزمائی کی تھی لیکن ناکام رہے تھے۔

ان کے علاوہ اس ریس میں کیلی فورنیا سے منتخب سینیٹر کمالا ہیرس، ورمونٹ سے سینیٹر برنی سینڈرز اور میسا چوسٹس سے منتخب سینیٹر الزبتھ وارن سرِ فہرست ہیں۔

پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے والا امیدوار 2020ء کے صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرے گا جو قوی امکان ہے کہ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے دوسری مدت کے لیے بھی صدارت کے امیدوار ہوں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کی طرف سے صدارتی انتخاب میں اُمیدوار بننے کے اعلان میں تاخیر سے دیگر اُمیدواروں کے مقابلے میں انتخابی مہم کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ البتہ خارجہ اُمور، کریمنل جسٹس اور داخلی پالیسی میں وسیع تجربہ رکھنے کے باعث اُنہیں دیگر تمام اُمیدواروں کے مقابلے میں فوقیت حاصل ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اُن کا یہ وسیع تجربہ اُنہیں وائٹ ہاؤس تک پہنچا سکے گا؟ اس بارے میں تجزیہ کاروں کی طرف سے متضاد رائے سامنے آ رہی ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اس وسیع تجربے کی بنیاد پر ووٹروں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور صرف وہی موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے سکنے کی پوزیشن میں ہیں۔ جب کہ دیگر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو اب کسی نئے چہرے کی ضرورت ہے۔

بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک ایڈووکیسی گروپ ’’تیسرا راستہ‘‘ کے جم کیسلر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا لگ بھگ 40 سال تک سینیٹر اور دو مرتبہ نائب صدر رہنے والے جو بائیڈن کا ریکارڈ اُن کے لیے سرمایہ ثابت ہو گا یا پھر خسارہ۔

کئی افراد کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کی عمر بھی ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو وائٹ ہاؤس میں داخلے کے وقت ان کی عمر 78 سال ہو گی۔

لیکن بعض ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ جو بائیڈن ان سفید فام ورکنگ کلاس ووٹرز کو ڈیموکریٹ پارٹی کے دوبارہ قریب لا سکتے ہیں جو 2016ء کے انتخاب میں ہلری کلنٹن کو ووٹ دینے کی بجائے ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف چلے گئے تھے۔

آج جمعرات کے روز صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ کی بنیادی اقدار اور دنیا میں اس کی حیثیت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اُن کی چار سالہ مدت کو تاریخ میں ایک ڈراؤنے خواب کی طرح دیکھا جائے گا اور اگر اُنہیں مزید چار برس کے لیے منتخب کر لیا گیا تو پھر ہمیشہ کے لیے امریکہ کا روایتی کردار تبدیل ہو کر رہ جائے گا، اور وہ خاموش تماشائی کی طرح ایسا ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔

حالیہ دنوں میں کم سے کم سات خواتین نے 76 سالہ جو بائیڈن پر ماضی میں اُنہیں جنسی طور پر حراساں کرنے کا الزام لگایا۔ تاہم اُنہوں نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG