اردن کے ایک سینییر عہدے دار نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ اردن سے تعلق رکھنے والے تقریباً 9 سو جنگجو شام اور عراق میں داعش اور القاعدہ کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں ، لیکن اب ان کی بھرتیوں میں تیزی سے کمی آگئی ہے۔
اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عہدے دار نے بتایا کہ سن 2013 اور 2014 میں شام اور عراق میں لڑنے کے لیے جانے والوں میں سے اکثر اردن واپس آگئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کٹڑ جہادی گروپس میں بھرتی ہونے والوں کی تعداد گذشتہ تین برسوں میں تیزی سے کم ہوئی ہے اور اس کی وجہ اردن کی سیکیورٹی فورسز کے انٹیلی جینس کی بنیاد کیے جانے والے آپریشنز ہیں جن کا تعلق انتہاپسندی کی جانب راغب ہونے والے نوجوانوں کی گرفتاریوں اور انہیں لڑائی کے لیے عراق اور شام بھیجنے کے منصوبوں کو ناکام بنانے سے ہے۔
اردن داعش کے خلاف امریکی قیادت کے اتحاد میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے جس کے تحت وہ فوج ، انٹیلی جینس اور لاجسٹک مدد فراہم کرتا ہے۔
اردن کی مغرب کی تربیت یافتہ سیکیورٹی فورسز جو سی آئی اے کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں، علاقے کی دیگر فورسز کے مقابلے میں انتہائی جدید اور ترقی یافتہ تصور کی جاتی ہیں اور انہوں نے طویل عرصے تک عسکریت پسندوں کے حملوں کے خلاف تربیت اور تجربہ حاصل کیا ہے۔
اردنی سیکیورٹی فورسز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کا ان کے ملک میں کو ئی انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے، تاہم نوجوانوں میں شدت پسندی کی جانب راغب ہونے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے ملک میں عسکری گروہ بنانے کے بہت سے منصوبے ناکام بنا دیے ہیں۔