رسائی کے لنکس

کراچی سے پروازیں بحال، ہوائی اڈوں کی سکیورٹی سخت


حکام کے مطابق حملہ آوروں میں ’ازبک‘ جنگجو بھی شامل تھے اور اُن سے بھاری مقدار میں اسلحہ و بارود قبضے میں لیا گیا۔

پاکستان کے شہر کراچی میں ملک کے سب سے بڑے ہوائی اڈے پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد شروع کی گئی کارروائی پیر کو طلوع آفتاب کے وقت مکمل ہوئی، جس میں حکام کے مطابق 10 حملہ آوروں سمیت کم ازکم 28 افراد ہلاک ہو گئے۔

حکام کے مطابق لگ بھگ چھ گھنٹوں تک دہشت گردوں کے خلاف جاری رہنے والی کارروائی میں ہلاک ہونے والوں میں پولیس، رینجرز، ائیرپورٹ سکیورٹی فورس اور ہوائی اڈے کے عملے کے افراد شامل ہیں۔

اُدھر پیر کی شام کو کراچی کے ہوائی اڈے پر پروازوں کی آمد و رفت بحال کر دی گئی تاہم جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ سمیت ملک کے دیگر ہوائی اڈوں کی سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مزید ایسی کارروائیوں کی دھمکی دی ہے۔ تنظیم کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے مطابق یہ حکومت کے لیے پیغام ہے کہ ’’ہم اب بھی کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘

حملہ آوروں سے بڑی تعداد میں اسلحہ و بارودی بھی ملا
حملہ آوروں سے بڑی تعداد میں اسلحہ و بارودی بھی ملا

شہری ہوا بازی کے لیے وزیراعظم کے مشیر شجاعت عظیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دہشت گردوں میں غیر ملکی بھی شامل تھے۔

’’یہ خودکش بمبار تھے انھوں نے جیکٹس پہنی ہوئی تھیں یہ تو ڈیتھ مشن پر آئے تھے، یہ تمام ہی غیر ملکی معلوم ہوتے تھے، ازبک تھے یا تاجک تھے۔ میں نے تو ان کی ’لاشیں‘ دیکھی ہیں جو شکل پاکستانی شکل سے ہی نہیں لگتے۔‘‘

شجاعت عظیم کا کہنا تھا کہ وہ ہوائی اڈے پر لوگوں کو یرغمال بنانا چاہتے تھے لیکن اُنھیں محدود کر دیا گیا۔

’’پانچ ایک طرف سے داخل ہوئے پانچ دوسری طرف سے، انھوں نے ہمارے اے ایس ایف کے لوگوں کو ہلاک کیا۔ جو سیکنڈ لائن آف ڈیفینس تھی انھوں نے (دہشت گردوں) کو محدود کیا نہیں تو بہت زیادہ نقصان ہو جاتا۔‘‘

سندھ رینجرز کے سربراہ رضوان اختر نے کراچی ائیرپورٹ پر آپریشن مکمل ہونے کے بعد بتایا کہ ’’تین دہشت گردوں نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر کے خود کو اُڑا دیا، جب کہ سات دیگر کو سکیورٹی فورسز نے کارروائی کر کے ہلاک کیا۔‘‘

رضوان اختر کے مطابق کہ بظاہر یہ جنگجو ’ازبک نسل‘ کے معلوم ہوتے ہیں۔

’’آپ اُن کے خدوخال سے اندازہ کر سکتے ہیں، ہم ابھی اُن کے ڈی این اے ٹیسٹ کروائیں گے۔ ان کی باقی معلومات حاصل کر لی جائیں گی، اُن سے متعلق جو دستاویزات ہیں اُن کو ابھی ہم نے غور سے نہیں دیکھا۔ لیکن جو (اُن کے چہرے ہیں) وہ یقیناً غیر ملکی لگتے ہیں اور ہم نے جو آپس میں بات کی ہے وہ ازبک لگتے ہیں۔‘‘

افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں خاص طور پر شمالی وزیرستان میں ازبک جنگجو بھی موجود ہیں اور پاکستانی فوج کے مطابق حالیہ ہفتوں میں سکیورٹی فورسز کی شمالی وزیرستان میں کارروائی کے دوران بھی مارے جانے والے دہشت گردوں میں ازبک جنگجو شامل تھے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’’دہشت گردوں کو (ہوائی اڈے پر) دو حصوں تک محدود کر کے ختم کر دیا گیا۔ اُن کے پاس سے ملنے والا اسلحہ، آر پی جیز اور راکٹ بھی قبضے میں لیے گئے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’علاقہ صاف ہے، جہازوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، تصاویر میں نظر آنے والی آگ جہازوں کو نہیں بلکہ عمارت میں لگی تھی جسے اب بجھا لیا گیا ہے۔ تمام اہم اثاثے محفوظ ہیں۔‘‘

سندھ رینجرز کے ترجمان نے بتایا کہ 20 سے 25 سال عمر کے دس دہشت گرد سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مارے گئے۔
کارروائی میں پاکسانی فوج نے بھی حصہ لیا
کارروائی میں پاکسانی فوج نے بھی حصہ لیا

صوبہ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل ممین نے کہا کہ حملہ آور انتہائی تربیت یافتہ تھے۔

اتوار کو نصف شب سے قبل خودکش جیکٹس پہنے اور جدید خود کار ہتھیاروں اور راکٹوں سے لیس دہشت گرد کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ میں داخل ہوئے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق اُنھوں نے ائیر پورٹ سکیورٹی فورس سے مشابہت رکھنے والی وردیاں پہن رکھی تھیں جب کہ اُن کے بعض ساتھی خار دار تاریں کاٹ کر وہاں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اس حملے کے فوراً بعد حکام کو ہدایت کی کہ’تمام مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے‘۔

حکام کے مطابق تمام مسافروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا اور حملے کے بعد سے تمام پروازیں معطل کردی گئی تھیں جو کہ اب تک بحال نہیں ہوئی ہیں۔

حالیہ مہینوں میں دہشت گردوں کی طرف سے کیا جانے والا یہ سب سے بڑا اور منظم حملہ تھا۔

کراچی میں اس سے قبل بھی اس ہوائی اڈے سے کچھ ہی فاصلے پر واقع پاکستان بحریہ کے مہران بیس پر 2011ء میں ایک ایسے ہی ایک حملے میں دہشت گردوں نے اہم طیاروں کو نقصان پہنچایا تھا۔
XS
SM
MD
LG