رسائی کے لنکس

کراچی میں انجانے خوف ، 63 سالوں میں سخت ترین سیکورٹی


کراچی میں ایک حالیہ خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کے لواحقین
کراچی میں ایک حالیہ خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کے لواحقین

آج اس خوف میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی یوم عاشورہ پر دہشت گردی کا امکان ہے ۔

ان دنوں کراچی ایک عجیب اور انجانے سے خوف میں مبتلا ہے۔ جدھر دیکھو ہر طرف ایک ہی دعا لبوں پر ہے۔ خداکرے یہ محرم خیریت کے ساتھ گزر جائے۔ جیسےجیسے نو اور دس محرم کے دن قریب آرہے ہیں لوگوں کےخوف میں اضافہ ہورہا ہے اور حکومت کی جانب سے غیر معمولی اور سخت ترین سیکورٹی کے اقدامات کودیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 63 سالوں میں اس قدر سخت سیکورٹی میں محرم کبھی نہیں گزرا۔

آج اس خوف میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی یوم عاشورہ پر دہشت گردی کا امکان ہے ۔ اس سال پانچ ہزار سات سو افسران اور اہلکاروں کو تعینات کیا جارہا ہے جبکہ گزشتہ سال مرکزی جلوس کی حفاظت کیلئے چھ ہزار اہلکار تعینات کیے گئے تھے ۔اس طرح گزشتہ سال کی نسبت اس مرتبہ مرکزی جلوس کی حفاظت کیلئے تعینات نفری میں تین سو اہلکاروں کی کمی کر دی گئی ہے ۔ دوسری جانب جلوس کی گزر گاہوں پر واقع شاپنگ سینٹر ز کے دکانداروں نے اپنا قیمتی سامان دیگر مقامات پر منتقل کر نا شروع کر دیا ہے اور شہریوں میں سخت خوف وہراس پایا جاتا ہے ۔

سی سی پی او کراچی فیاض لغاری کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا سب سے زیادہ خدشہ ساؤتھ زون میں ہے ۔ا نہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ دہشت گرد ایمبولینسز اور قانون نافذ کرنے والی گاڑیوں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر سکتے ہیں اوران کے ذریعے جلوس میں داخل ہو سکتے ہیں جس کی روک تھام کیلئے اسپیشل پروٹیکشن فورس، سی آئی ڈی اور دیگر تحقیقاتی ٹیموں کی مدد حاصل کر لی گئی ہے ۔

گزشتہ سال محرم الحرام میں کراچی میں امن و امان کی انتہائی مخدوش صورتحال نظر آئی تھی ۔آٹھ محرم کو پاپوش نگر میں ماتمی جلوس پر کریکر حملے میں پانچ بچوں اور خواتین سمیت انیس افراد زخمی ہو گئے تھے ۔ نو محرم الحرام کو قصبہ کالونی اورنگی ٹاؤں میں دھماکے میں تین پولیس اہلکاروں سمیت 31 افراد زخمی ہو گئے تھے ۔ جس کے بعد دس محرم الحرام کو ایم اے جناح روڈ پر مرکزی جلوس کو نشانہ بنایا گیا جس میں 43 افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے ۔ فوری طور پر اس دھماکے کو خود کش قرار دیا گیا تاہم بعد میں بتایا گیا کہ یہ خود کش دھماکہ نہیں تھا ۔ اتنی زیادہ سیکورٹی میں ہونے والے دھماکے کی نوعیت آج تک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔

سی سی پی او کراچی فیاض لغاری کا کہا ہے کہ ایم اے جناح روڈ پر جلوس کی گزر گاہوں میں آنے والی دکانوں اور عمارتوں کو آٹھ محرم الحرام کو ہی بم ڈسپوزل اسکواڈسے ا سکینگ کے بعد سیل کر دیا جائے گا ۔ شہری حکومت اور ٹریفک پولیس کی جانب سے نصب کیمروں کے علاوہ مزید کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں ۔یاد رہے کہ گزشتہ سال مرکزی جلوس میں ہونے والے دھماکے کی ویڈیو بھی ان ہی کیمروں کے باعث منظر عام پر آ چکی ہے ۔

وزیر اعلیٰ سندھ اور رینجرز کے ہیلی کاپٹرز کو بھی فضائی نگرانی کیلئے استعمال کیا جائے گا ، ضرورت پڑنے پر وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے مزید ہیلی کاپٹرز بھی فراہم کرنے کی یقین دہانی کر دی گئی ہے ۔ جلوس میں شامل ہونے والی ہر گاڑی کو سیکورٹی فراہم نہیں کی جا سکتی تاہم شہر کے دیگر علاقوں سے آنے والے جلوسوں کیلئے روٹ سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں ۔ اسپیشل اسٹیکر اور پاس کے بغیر کسی ایمبولینس یا پرائیویٹ گاڑی کو جلوس میں شامل نہیں ہونے دیا جائے گا ۔

نو اور دس محروم کو جلوس کی گزر گاہوں سے متصل سڑکوں کو مکمل طور پر سیل کیا جائے گا تاہم اس بات کا خاص خیال رکھا جائے گا کہ ماتم کے دوران زخمی ہونے والوں کو اسپتال لے جانے والی ایمبولینسوں کو کس راستے سے نکالنا ہے جبکہ سڑکیں سیل کرتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا جائے گا کہ ممکنہ دہشت گردی کی کارروائی ہونے کی صورت میں زخمیوں کو اسپتال تک پہنچانے کیلئے ایمبولینسوں کو آنے جانے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔


سی سی پی او نے کہا کہ پرانے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسپتالوں کی سیکورٹی کیلئے بھی خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں جہاں رینجرز اور پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کی جائے گی ۔ گزشتہ سال شہداء کربلا کے چہلم کے موقع پر شاہراہ فیصل پر عزاداروں کی بس پر خود کش حملہ کیا گیااور جب اس واقعہ کے زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا تو جناح اسپتال کے ایمرجنسی گیٹ پر بھی دھماکا کر دیا گیا ، دونوں واقعات میں پچیس افراد جاں بحق ہو گئے تھے ۔

دوسری جانب گزشتہ سال عاشورہ کے موقع پر تجارتی علاقوں میں منظم دہشت گردی اور آتشزدگی کے واقعات کے سبب مرکزی جلوس کے راستے میں آنے والے بازاروں کے تاجر شدید تشویش سے دو چار ہیں اور انہوں نے کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے قبل ہی اپنا اسٹاک محدود کرنا شروع کر دیا ہے ۔ بازار سے تمام زیورات اوردیگر قیمتی اشیا کی محفوظ مقامات پر منتقلی جاری ہے ۔

گزشتہ سال یوم عاشورہ کے مرکزی جلوس میں ہونے والے دھماکے کے بعد شر پسند عناصر نے لائٹ ہاؤس سے بولٹن مارکیٹ تک تقریبا تین ہزار دکانوں کو آگ لگا دی تھی جس کے نتیجے میں اندازاً 30 ارب مالیت کا رکھا سامان خاکتسر ہو گیا تھا ،قانون نافذ کرنے والے ادارے شر پسندوں پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دیئے اور یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ تاجر شدید پریشانی میں مبتلا ہیں ۔

گزشتہ سال دھماکے کے بعد شہر بھر میں بھی ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور متعدد کاروباری مراکز سمیت تقریبا 85 گاڑیاں جلا دی گئی تھیں اور پورے شہر میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال کے تلخ تجربے کے باعث شہری بھی شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں اور لوگوں میں ایک انجانہ خوف پایا جاتا ہے۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی فضل الرحمان کے مطابق شہری حکومت اور ٹاؤن انتظامیہ نے ای ڈی او میونسپل سروسز مسعود عالم کو فوکل پرسن مقرر کر کے شہری حکومت میں ایک کنٹرول سینٹر قائم کردیا گیا جو شکایات موصول ہوتے ہی ان کے حل کیلئے فوری کارروائی کرے گا ۔

XS
SM
MD
LG