پیر کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ اُن کے ایک قریبی معاون عمر داؤد زئی ایران سے نقد بھاری رقوم وصول کرتے رہے ہیں اوریہ سب کام ایک شفا ف طریقے سے ہوا ہے۔ صدر کرزئی کے بقول افغانستان کے دوست اور ہمسایہ ملک ایران سے ملنے والے” نوٹوں سے بھرے تھیلے “کسی ایک شخص کے لیے نہیں بلکہ صدارتی دفتر کے اخراجات اور ملازمین کی تنخواہوں کے لیے وصول کیے گئے ہیں۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت سال میں ایک یا دو مرتبہ سرکاری امداد کے طور پر ان کے ملک کو پانچ سے سات لاکھ یورو کی امداد فراہم کرتی ہے اور اُن کے معاون داؤد زئی خود ان کی ہدایات پر یہ رقم وصول کرتے آئے ہیں جس کی تفصیلات ذرائع ابلاغ کو جاری کرنے میں انھیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔
افغان صدر نے کہا کہ اُنھوں نے کیمپ ڈیوڈ میں سابق صدر بش سے ملاقات میں انھیں اس بارے میں آگاہ کیا تھا اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ صدر کرزئی نے کہا کہ اُن کا ملک ایران سے ملنے والے نوٹوں کے تھیلوں پر ایرانی حکومت کا شکر گزار ہے اور اس کے جواب میں ایران نے بہتر تعلقات اور دوسری چیزوں کا تقاضا کیا ہے تاہم افغان صدر نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ بھی بعض افغان دفاتر کے ملازمین کی تنخواہوں کے لیے نقد رقوم فراہم کر رہا ہے۔ صدر کرزئی نے کہا کہ افغانستان چاہے گا کہ ایران اس کی یہ امداد جاری رکھے اور افغان حکومت ایران سے امداد کا یہ سلسلہ جاری رکھنے کوکہے گی۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ افغان صدر کے معاون کو فراہم کیے جانے والے نوٹوں کے تھیلوں کا مقصد کابل میں ایران کے مفادات کو فروغ دینا اور صدرارتی محل میں ایرانی اثرورسوخ کو بڑھانا ہے۔ اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ ایرانی حکومت سے ملنے والی رقوم کو افغان سیاسست دانوں، قبائلی رہنماؤں اور بعض طالبان کمانڈروں کی وفاداریاں خریدنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تاہم صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ امریکہ اور دوسرے دوست ممالک بھی افغانستان کو اس طرح کی نقد رقوم ادا کرتے رہے ہیں لہذا ایران سے ملنے والی رقوم کو مسئلہ بنانے کی ضرورت نہیں۔