رسائی کے لنکس

عالمی کمیشن کا کشمیر میں زیادتیوں کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عالمی انسانی حقوق کمشن کے سربراہ نے کہا ہے کہ میں قوام متحدہ ہیومن رائٹس کونسل پر زور دینا چاہوں گا کہ وہ ایک کمشن آف انکوائری بٹھانے پر غور کرے تاکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی وسیع پیمانے پر آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات ہو سکیں۔

اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے 49 صفحات پر مشتمل اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کشمیر کے عوام کو انصاف دلانے کے لئے ماضی میں کی گئی اور اس وقت جاری انسانی حقوق کی پامالیوں اور بد سلوکیوں پر توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے۔

جمعرات کو جنیوا میں یو این ہیومن رائٹس کمشن کی طرف سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے عوام نے گزشتہ سات دہائیوں سے جاری تنازعے کی وجہ بے شمار تکالیف اُٹھائی ہیں، کثیر تعداد میں انسانی جانیں تلف یا برباد ہوئی ہیں۔

کشمیر کے بھارت اور پاکستان کے زیرِ انتظام حصوں میں انسانی حقوق کی صورت احوال پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ یہ پہلی رپورٹ ہے اور اس میں حد بندی لائن کی دونوں جانب کی مبینہ پامالیوں کی عکاسی کرتے ہوئے ایک ایسی صورت حال کو ابھار نے کی کوشش کی گئی ہے جس میں رپورٹ کے مطابق ان کا ارتکاب کرنے والے حفاظتی دستوں کو سزا سے حتمی بریت حاصل ہے۔

کمشن کے سربراہ زید رعد الحسین کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان اس تنازعے کے سیاسی حدود ابعاد بڑے عرصے سے توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں لیکن یہ ایسا تنازع نہیں جو وقت کے ساتھ منجمد ہوگیا ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا تنازع ہے جس نے لاکھوں لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے اور وہ آج کے دن تک ان کہی مصیبتیں جھیل رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا ۔" اسی لئے کشمیر کی سیاسی صورتِ حال کا کوئی بھی حل اس بات کا ضرورپابند ہو کہ تشدد کا سلسلہ بند ہو جائے اور تمام فریقین کے ہاتھوں ماضی میں کی گئی اور اس وقت کی جارہی پامالیوں اور بد سلوکیوں کا احتساب ہو اور ان کا شکار ہونے والوں کی تلافي ہو"۔

زید رعد الحسین نے کہا ۔" اسی لئے میں اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کونسل پر زور دینا چاہوں گا کہ وہ ایک کمشن آف انکوائری بٹھانے پر غور کرے تاکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی وسیع پیمانے پر آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات ہو سکیں"۔

بھارت نے رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ یہ اس کے بقول دھو کہ دہی پر مبنی، میلانی اور اکسانے والی ہے۔ نئی دہلی میں وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کئے گئے ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رپورٹ بھارت کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کرتی ہے۔

تاہم استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں اور ان کے قائدین اور نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی کئی دوسری سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی گروپس اور انسانی حقوق تنظیموں نے رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔

کشمیر کے سرکردہ سیاسی اور مذہبی راہنما میرواعظ عمر فاروق نے کہا “اگرچہ اقوام متحدہ بالخصوص اس کے ہیومن رائٹس کمشن کو بہت پہلے کشمیر میں پائی جانے والے انسانی حقوق کی گمبھیر صورتِ حال کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔ دیر آید درست آید ہم اس بات کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کی حقیقت کو بالآخر تسلیم کرلیا ہے۔"

میر واعظ نے مزید بتایا۔ "رپورٹ میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کے لئے ایک انکوائری کمشن بٹھانے پر زور دیا گیا ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کی اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ خود پہل کرے گا اور سچ کیا ہے، غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے اسے دنیا کے سامنے رکھ دے گا۔ ہم یہ امید بھی کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت اس میں روڑے نہیں اٹکائے گی"۔

جب ان سے کہا گیا کہ بھارتی حکومت نے رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا ہے تو میرواعظ عمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا۔" یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت نے ایک مرتبہ پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ایشیا واچ جیسی عالمی انسانی حقوق تنظیمیں پہلے ہی دنیا کو کشمیر کی صورتِ حال کے بارے میں بالخبر کرتی رہی ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان دونوں مجوزہ انکوائری کمشن سے تعاون کریں گے اور اسے اور دوسری معتبر انسانی حقوق تنظیموں کی اپنے اپنے زیرِ انتظام کشمیر تک مکمل رسائی کو ممکن بنائیں گےتاکہ ان تمام پامالیوں اور زیادتیوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ممکن بن جائے جن کا برسوں سے ارتکاب ہو رہا ہے"۔

پاکستانی کنٹرول کے کشمیر کے صدر کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا گیا ہے کہ بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں، جنسی تشدد، حراستوں ، پیلٹ گنز کے استعمال اور طاقت کے بے دریغ استعمال کی تحقیقات کے لیے ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمشن بنایا جائے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG