بھارتی کشمیر میں پچھلے کئی روز سے جاری بھارت مخالف پُرتشدد مظاہروں میں کم از کم 15 افراد کی ہلاکت کے بعد دارالحکومت سری نگر میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے پہلی مرتبہ فوج کو بھی طلب کر لیا گیا ہے جو بدھ کو شہر کی سڑکوں پر گشت کرتی رہی۔ عینی شاہدین کے مطابق شہر کی سڑکیں سنسان رہیں اور جگہ جگہ نظر آنے والے بینرز پر بھارت کے خلاف نعرے درج تھے۔
مقامی رہائشیوں کا الزام ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں احتجاجی جلوسوں پر پولیس کی فائرنگ سے ہوئیں جو کشیدگی میں اضافے اور مظاہروں کے سلسلے کو وادی کے اکثر حصوں تک پھیلانے کا باعث بنا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہرے ایک شہری کی ہلاکت کے بعد اچانک شروع ہوئے۔ تاہم بھارتی حکومت نے الزام لگایا ہے کہ ان کے پیچھے پاکستانی انتہاپسند تنظیم لشکر طیبہ کا ہاتھ ہے جس نے مبینہ طور پر 2008 ء میں ممبئی میں ہلاکت خیز حملوں کا منصوبہ بھی تیا ر کیا تھا۔
بھارتی کشمیر میں 2008 ء میں بھی بڑے پیمانے پر ہونے والے بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں میں کم ازکم 40 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ تازہ واقعات کے بعد سری نگر میں فوج طلب کرنے کا مقصد پہلے کی طرح حالات کو قابو سے باہر ہونے سے روکنا ہے۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ بے روزگاری سے نالاں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور سرکاری دفاتر میں بدعنوانی میں اضافے کو روکنے میں بھارتی کشمیر کی حکومت کی ناکامی حالیہ مظاہروں میں شدت آنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
برطانیہ میں قائم ایک نجی ادارے کے حالیہ سروے کے مطابق بھارتی کشمیر میں 87 فیصد لوگوں کا ماننا ہے کہ بے روزگاری اُن کاسب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے بعد بدعنوانی، اقتصادی ترقی کا نا ہونا اور انسانی حقوق کی خراب صورت حال کو بھی وہ موجودہ حالات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
پاکستانی حکومت نے بھارتی کشمیر میں ہونے والے مظاہروں پر بھارتی پولیس کی فائرنگ پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے البتہ گزشتہ ہفتے میڈیا سے گفتگو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے صرف اتنا کہا تھا کہ بھارتی ہم منصب کے ساتھ 15 جولائی کو اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان اس معاملے کواُٹھایا گا۔
بھارتی کشمیر کی صورت حال پر ماضی کے برعکس پا کستانی حکومت اور میڈیا کی خاموشی پر تبصرہ کرتے ہوئے سری نگر میں کشمیر یونیورسٹی کے انسانی حقوق کے پروفیسر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ شاید پاکستان وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات سے قبل ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتا ہے اُن کے خیال میں پاک بھارت وزرائے خارجہ سطح پر ہونے والی بات چیت میں کشمیر کے مسئلے کی جانب توجہ مبذو ل کروانا بھی ان مظاہروں کا ایک مقصد ہوسکتاہے۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود کا کہناہے کہ جنوبی ایشیا میں امن مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر ممکن نہیں ہے اور پاکستان کو وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات کا انتظار کیے بغیر کشمیر میں ہونے والی ہلاکتوں پر بھارت سے احتجاج کرنا چاہیئے۔