رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں نوجوان فن کار ’ہم فلسطینی ہیں‘ کی گرافٹی بنانے پر گرفتار


مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق آرٹسٹ مدثر گُل کو، جن کا تعلق سرینگر کے پادشاہی باغ کے  علاقے سے ہے، جموں و کشمیر کے سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق آرٹسٹ مدثر گُل کو، جن کا تعلق سرینگر کے پادشاہی باغ کے  علاقے سے ہے، جموں و کشمیر کے سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔

اسرائیل اور فلسطینیوں میں جھڑپوں میں جانی اور مالی نقصان پربھارت کے زیرِ انتظام کشمیر بالخصوص مسلم اکثریتی علاقوں میں غم و غصے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دارالحکومت سرینگر اور وادی کے چند دوسرے علاقوں میں جمعے کو لوگوں نے اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے۔

پولیس نے ان مظاہروں میں حصہ لینے کے الزام میں 20 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ بیشتر گرفتاریاں سرینگر اور جنوبی ضلع پُلوامہ میں کی گئی ہیں۔

مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنما فلسطینیوں کے خلاف ان کے بقول اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مسلسل بیانات دے رہے ہیں۔ کئی افراد نے سوشل میڈیا پر اسرائیل کی مذمت کی جس کے بعد پولیس نے سخت کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پولیس کے مطابق ایسے افراد جو غزہ یا دیگر فلسطینی علاقوں میں پیش آنے والے واقعات کی آڑ لے کر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں امن و امان کو غارت کرنے کے درپے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان گرفتار یوں کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی شدید نکتہ چینی اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر اظہار ناراضگی کے بعد پولیس نےگرافٹی آرٹسٹ مدثر گل کو اتوار کے روز رہا کردیا۔

پولیس حکام نے کہا کہ اسرائیل مخالف مظاہروں میں شرکت کرنے والے سترہ لڑکوں کو بھی مناسب مشورت کے بعد ان کے والدین کے حوالے کیا گیا ہے۔ پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان لڑکوں کو 'کرونا کرفیو ' کے دوران مظاہرے کرنے پر آفات کی روک تھام سے متعلق قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ ان کا یہ عمل کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کی جارہی کوششوں کو ناکام بنانے کا موجب بن سکتا تھا۔

فلسطین کے نام پر کشمیر میں گڑ بڑ پر پولیس کی وارننگ

انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے ہفتے کو سرینگر میں دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ جموں و کشمیر پولیس ایسے عناصر پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے جو کشمیر میں امن و امان کو خراب کرنے کے لیے فلسطین کی صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس ایسے غیر ذمہ دارانہ سوشل میڈیا تبصروں کے حوالے سے انتہائی حساس ہے جن کے نتیجے میں تشدد بھڑک سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس ایک پیشہ ور فورس ہے اور عوام کو درپیش ذہنی عذاب کے معاملے میں حساس بھی ہے۔ لیکن جموں و کشمیر پولیس کی یہ قانونی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ امن و امان کو یقینی بنائے۔ یہ ایسی کسی کوششوں کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتی جس کا مقصد عوام میں پائی جانے والی ناراضگی کی آڑ میں کشمیر کی سڑکوں پر تشدد بھڑکانے، لاقانونیت پھیلانے اوربدنظمی پیدا کرنا ہے۔

وجے کمار نے مزید کہا کہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی ہے لیکن سڑکوں پر تشدد کرنا اور اس کے لیے اکسانا غیر قانونی عمل ہے۔

ان کے مطابق سوشل میڈیا پر کی جانے والی ایسی غیر ذمہ دارانہ رائے زنی کرنے والے تمام لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی جن سے عملاََ تشدد بھڑکے اور قانون بشمول کرونا پرٹوکول کی خلاف ورزی ہو۔

پیش امام فلسطینیوں کے حق میں تقریر کرنے پر گرفتار

قبل ازیں پولیس نے ہفتے کو علی الصبح جنوبی ضلع شوپیاں کے ایک مبلغ اور پیش امام سرجان برکتی کو ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔

مقامی ذرائع کے مطابق برکتی نے عید کے روز شوپیاں کی ایک مسجد میں تقریر کرتے ہوئے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا اور یہ دعا کی تھی کہ فلسطین کے بچے اور خواتین ان کے بقول اسرائیل کے شر اور بربریت سے محفوظ رہیں۔

تاہم شوپیاں کے ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ برکتی کو اسرائیل کے خلاف بیان دینے پر گرفتار نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس لیے حراست میں لیا گیا ہے کہ انہوں نے عید پر نمازیوں سے خطاب کے دوراں اشتعال انگیز کلمات کہے تھے۔

ضلعے کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس امرت پال سنگھ کا کہنا تھا کہ برکتی کو امتناعی حراست'میں رکھا گیا ہے۔

سرینگر میں پولیس حکام نے بتایا کہ برکتی نے کرونا وائرس سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پائی جانے والی تشویش ناک صورتِ حال کے پیشِ نظر نافذ لاک ڈاؤن کے باوجود مقامی مسجد میں عید ِنماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا تھا۔ اس دوران کرونا ایس او پیز کی نفی کر کے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا گیا۔

برکتی کو عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے خلاف وادی میں مظاہروں میں حصہ لینے، اشتعال انگیز اور بھارت مخالف تقرریں کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کو چار سال تک قید میں رہنے کے بعد اکتوبر 2020 کے آخری ہفتے میں رہا کیا گیا تھا۔

فلسطین پر گرافٹی بنانے والے آرٹسٹ کے خلاف بھی کارروائی

پولیس حکام نے ایک ایسے آرٹسٹ کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی منظوری دی ہے جس نے دو روز قبل دارالحکومت سرینگر کے ایک علاقے میں ایک واٹر ٹنک کے ساتھ بنائے گئے آہنی پُل پر ایک فلسطینی عورت کی تصویر بنائی تھی جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس کے سر ڈھکنے کے رومال پر فلسطین کا جھنڈا بنایا گیا تھا۔

گرافٹی پر انگریزی میں لکھا گیا تھا کہ ’ہم فلسطین ہیں‘۔ جب کہ آہنی چبوترے پر فلسطین کا پرچم لہرایا گیا تھا۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق آرٹسٹ مدثر گُل کو، جن کا تعلق سرینگر کے پادشاہی باغ کے علاقے سے ہے، جموں و کشمیر کے سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔

اس بدنامِ زمانہ قانون کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پرباضابطہ مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس طرح کے معاملات کی حکومت کی طرف سے قائم کردہ ایک کمیٹی وقتاََ فوقتاََ جائزہ لیتی رہتی ہے۔

رپورٹس کے مطابق جس وقت مدثر یہ گرافٹی بنا رہے تھے وہاں جمع ہونے والی ایک بھیڑ نے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نعرے لگائے تھے۔

تاہم پولیس نے مدثر کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لینے کی خبر کی تردید کی۔ حکام کا کہنا تھا کہ آرٹسٹ کے خلاف قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔

جمعے کو پیش آنے والے اس واقعے کے فوراََ بعد پولیس علاقے میں پہنچی تھی اور مدثر کو اُن کے گھر سے نکال کر اُس جگہ لے گئی تھی جہاں یہ گرافٹی بنائی گئی تھی۔

مدثر کے بڑے بھائی بدر السلام کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں گرافٹی کو مٹانے کے لیے کہا جس پر آرٹسٹ نے اس پر کالا رنگ پھیر دیا تھا۔بعد میں پولیس نے علاقے میں اسرائیل مخالف مظاہرے میں حصہ لینے والے تقریبا" نصف درجن نوجوانوں کو بھی گرفتار کیا۔

اسرائیل کے خلاف پوسٹر

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں میں حالیہ دنوں میں ایسے پوسٹر بھی دیواروں پر چسپاں نظر آئے جن میں لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اسرائیل میں بنی اشیا کا مکمل بائیکاٹ کریں۔

قبل ازیں کشمیر کے سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں قائم ایک مذہبی تنظیم نے لوگوں سے جمعتہ الوداع کو یومِ فلسطین اور یوم ِ کشمیر منانےکی اپیل کی تھی۔

بھارت کی مذمت اور تشویش

بھارت نے بدھ کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے غزہ اور اسرائیل میں پائی جانے والی صورتِ حال پر غور کے لیے بند کمرہ اجلاس کے دوران ہر قسم کی پر تشدد کارروائیوں کی مذمت کی تھی۔ تاہم اس نے خاص طور پر غزہ سے ہونے والے راکٹ حملوں پر تنقید کی تھی۔

اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے ٹی ایس تری مورتی نے سوشل میڈیا پر اجلاس کے دوران ان کی طرف سے اٹھائے گئے اہم نکات کا ذکر کرتے ہوئے علاقے میں تناؤ اور کشیدگی کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کو ٹیمپل ماؤنٹ کے احاطے میں پیش آنے والے واقعات پر گہری تشویش ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ ہی اسے شیخ جراح اور سلوان کے علاقوں سے لوگوں کو بے دخل کرنے کے عمل پر بھی یکساں تشویش ہے اور وہ غزہ سے ہونے والے راکٹ حملوں کی بھی مذمت کرتا ہے۔

واضح رہے بھارت کی موجودہ حکومت کے اسرائیل کے ساتھ قریبی اور گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG