رسائی کے لنکس

زینب قتل کیس: مجرم کو چار بار سزائے موت کا حکم


بچی سے زیادتی اور قتل کے واقعے پر پاکستان بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور کئی شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے۔
بچی سے زیادتی اور قتل کے واقعے پر پاکستان بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور کئی شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے۔

پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت نے گزشتہ ماہ قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کم سن بچی زینب کے قاتل عمران علی کو چار بار سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا ہے۔

عدالت کے جج سجاد احمد نے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہفتہ کو کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے مجرم کو ایک بار عمر قید اور مجموعی طور پر بتیس لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احتشام قادر نے فیصلے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ "عمران علی کو زینب کے ساتھ بد فعلی پر عمر قید اور لاش کے ساتھ بے حرمتی پر بتیس لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا۔"

عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے پر زینب کے والد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسے سرعام سزا دی جائے تا کہ آنے والے وقتوں میں کوئی ایسی حرکت نہ کر سکے۔

"میں عدالت کے اس فیصلے کو سراہتا ہوں لیکن میں حکومت سے اپیل کروں گا کہ اسے سرعام پھانسی دی جائے تا کہ آئندہ کوئی ایسی گھناؤنی حرکت نہ کر سکے۔"

فیصلے کے بعد زینب کی والدہ آسیہ بی بی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے اس فیصلے کو سراہتی ہیں لیکن وہ بھی یہی مطالبہ کریں گی کہ قوم کی دیگر بچیوں کو ایسے گھناؤنے فعل سے بچانے کے لیے مجرم عمران علی کو سرعام پھانسی دی جائے۔

'"نب کے قاتل کو اسی جگہ لٹکایا جائے جس جگہ وہ میری بیٹی کو لے کر گیا، اسی کوڑے کے ڈھیر میں اسے بھی پھینکا جائے۔"

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احتشام قادر کے مطابق مجرم عمران علی نے صحت جرم سے انکار نہیں کیا اور دوران ٹرائل مجرم نے دیگر سات بچیوں کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کا اعتراف کیا ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران ملزم کے اعتراف جرم کے باعث عمران علی کے وکیل شکیل الرحمن اس کیس سے علیحدہ ہوگئے تھے۔

عمران کے خلاف جیل میں چار روز تقریباً گیارہ گھنٹے سماعت ہوئی، اس دوران چھپن گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور چھتیس افراد کی شہادتیں پیش کی گئیں۔

سماعت کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ، پولی گرافک ٹیسٹ اور دیگر سائنسی شواہد بھی پیش کیے گئے۔ عمران علی پر 12 فروی کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر 15 فروری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

گزشتہ ماہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی ساڑھے چھ سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا اور اس کی لاش پانچ روز بعد کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔

XS
SM
MD
LG