رسائی کے لنکس

جج کیوینو پر الزام لگانے والی خاتون بیانِ حلفی دینے پر راضی


امریکی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں جسٹس کیوینو کی نامزدگی سے متعلق ہونے والی سماعت کا ایک منظر
امریکی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی میں جسٹس کیوینو کی نامزدگی سے متعلق ہونے والی سماعت کا ایک منظر

کرسٹین بلیسی فورڈ کا الزام ہے کہ بریٹ کیوینو نے انہیں اس وقت جنسی طور پر ہراساں کیا تھا جب وہ دونوں 36 سال قبل ہائی اسکول کے طالبِ علم تھے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سپریم کورٹ کے لیے نامزد جج بریٹ کیوینو پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کرنے والی خاتون کے وکلا نے کہا ہے کہ اگر ان کی سکیورٹی یقینی بنائی جائے تو ان کی مؤکلہ سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے پر آمادہ ہیں۔

وکیل ڈیبرا کیٹز کا کہنا ہے کہ ان کی مؤکلہ کو قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں جن کے باعث انہیں اور ان کے اہلِ خانہ کو کیلی فورنیا میں واقع اپنا گھر چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا ہے۔

کرسٹین بلیسی فورڈ کا الزام ہے کہ بریٹ کیوینو نے انہیں اس وقت جنسی طور پر ہراساں کیا تھا جب وہ دونوں 36 سال قبل ہائی اسکول کے طالبِ علم تھے۔

بلیسی فورڈ کی عمر 51 سال ہے اور وہ ریاست کیلی فورنیا کی ایک یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر ہیں۔

پروفیسر فورڈ نے گزشتہ ہفتے 'واشنگٹن پوسٹ' کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ 1982ء میں میری لینڈ میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران بریٹ کیوینو نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی تھی لیکن وہ انہیں دھکا دے کر موقع سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔

کرسٹین بلیسی فورڈ کے اس الزام کے بعد جج بریٹ کیوینو کی نامزدگی کی سینیٹ سے توثیق کھٹائی میں پڑگئی ہے اور ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹرز اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم حلقے اور تنظیمیں جج کیوینو کی نامزدگی کی توثیق سے قبل اس الزام کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

امریکی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی نے – جو جج کیوینو کی نامزدگی کے معاملے کی سماعت کر رہی ہے –جج کیوینو اور پروفیسر فورڈ کو پیر کو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا اپنا مؤقف بیان کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ابتدائی طور پر پروفیسر فورڈ نے مطالبہ کیا تھا کہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے قبل وہ چاہتی ہیں کہ ایف بی آئی اس معاملے کی تحقیقات کرے۔

جج بریٹ کیوینو
جج بریٹ کیوینو

کئی ڈیموکریٹ سینیٹرز نے بھی ان کے اس مطالبے کی حمایت کی تھی لیکن ری پبلکن ارکانِ کانگریس اور وائٹ ہاؤس نے یہ مطالبہ مسترد کردیا تھا۔

تاہم امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق پروفیسر فورڈ کی وکیل نے جمعرات کو جوڈیشری کمیٹی کو ای ایک میل کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ اگر کمیٹی ان کی سکیورٹی یقینی بنانے اور ان کی شرائط پر عمل کرنے پر تیار ہو تو پروفیسر فورڈ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے پر تیار ہیں۔

وکیل ڈیبرا کیٹز نے بذریعہ ای میل کمیٹی کو بتایا ہے ان کی مؤکلہ کے لیے پیر کو پیش ہونا ممکن نہیں اور کمیٹی کی جانب سے پیر کی سماعت پر اصرار کرنا نامناسب ہے۔

وکیل کے بقول ان کی مؤکلہ کو اپنا بیان تیار کرنے، کیلی فورنیا سے واشنگٹن ڈی سی تک سفر کے انتظامات اور دیگر تیاریوں کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

وکیل نے کمیٹی کوبتایا ہے کہ اگر ان کی مؤکلہ کی سکیورٹی یقینی بنائی جائے تو پروفیسر فورڈ جمعرات کو بیانِ حلفی کے لیے پیش ہو سکتی ہیں لیکن ان کی شرط ہے کہ جج کیوینو اس موقع پر کمیٹی روم میں موجود نہ ہوں۔

تاحال جوڈیشری کمیٹی نے ان شرائط پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

جج کیوینو خود پر عائد کیے جانے والے الزام کی تردید کرچکے ہیں اور وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ وہ پیر کو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا مؤقف واضح کریں گے۔

تریپن سالہ جسٹس بریٹ کیوینو واشنگٹن ڈی سی کی کورٹ آف اپیل کے جج ہیں جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے جج انتھونی کینیڈی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا تھا۔

پروفیسر فورڈ کے منظرعام پر آنے سے قبل تک جج کیوینو کی نامزدگی کی توثیق میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی تھی اور سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی ان کی نامزدگی کی توثیق کرنے ہی والی تھی۔

تاہم پروفیسر فورڈ کے الزام کے بعد ان کی توثیق کھٹائی میں پڑگئی ہے۔ ری پبلکنز اور وائٹ ہاؤس کی خواہش ہے کہ جج کیوینو اکتوبر کے پہلے پیر سے شروع ہونے والی عدالتی سال سے قبل سپریم کورٹ کے جج کا حلف اٹھالیں۔

XS
SM
MD
LG