رسائی کے لنکس

خالد حمید کی یادیں: دلیپ کمار سے دو یادگار ملاقاتیں


دلیپ کمار 1998 اور اس سے قبل 1988 میں پاکستان آئے تھے۔
دلیپ کمار 1998 اور اس سے قبل 1988 میں پاکستان آئے تھے۔

لاکھوں، کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے لیجنڈ فن کار یوسف خان عرف دلیپ کمار ہم سے رخصت ہو گئے۔ دلیپ کمار میں اللہ نے کچھ ایسی خصوصیات رکھی تھیں کہ وہ پردہٴ اسکرین پر ہوں یا اس سے باہر ان کو لوگ اسی طرح دیوانہ وار چاہتے تھے۔

ایک صدی سے لوگ ان کے دیوانے رہے اور نہ جانے کب تک ان کی شخصیت کا سحر قائم رہے گا۔

مجھے اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب وہ پاکستان تشریف لائے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ وہ پشاور میں اپنے آبائی گھر کو دیکھ سکیں۔

خصوصی انتظامات کے تحت وہ پشاور پہنچے۔ قصّہ خوانی بازار کی سیر کی اور پھر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ سیکیورٹی خدشات کی بنا پر ان کے اس دورے کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ لیکن نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو—

اور خبر ہونا بھی تھی۔ دلیپ کمار شہر میں ہوں اور ان کی خوشبو نہ پھیلے، یہ تو بہت مشکل ہی تھا۔ لہٰذا اپنے یوسف خان کو دیکھنے سارے بھائی، بہنیں، بچے اور بوڑھے سڑکوں پر امڈ آئے۔ گاڑیوں کا قافلہ منجمد ہو گیا۔

پھر یوسف خان کے لیے گھر دیکھنے جانا تو ناممکن تھا۔ مسئلہ یہ درپیش ہو گیا کہ انہیں اس ہجوم سے نکالا کیسے جائے؟ سیکیورٹی کی بھاری نفری لگائی گئی۔ لوگوں کو پیچھے دھکیلا گیا اور جیسے تیسے خان صاحب کو بحفاظت وہاں سے نکالا گیا۔ یوں وہ اپنے آباؤ اجداد کی میراث دیکھنے کی حسرت لیے پاکستان سے رخصت ہو گئے۔

اسی دورے میں انہیں 'نشانِ امتیاز' کا اعلیٰ ترین اعزاز عطا کیا گیا اور اس موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) اسلام آباد نے ان کے ساتھ ایک شام منعقد کی جس کی کمپیئرنگ مرحوم معین اختر نے کی۔ اس تقریب میں محمد علی، زیبا اور ٹی وی کی معروف فن کارہ شہناز شیخ کے علاوہ بھارتی اداکار سنیل دت بھی شریک تھے۔ شہناز کو خصوصی طور پر لاہور سے بلوایا گیا تھا کیوں کہ دلیپ صاحب نے ان کا مشہور ٹی وی ڈرامہ ’ان کہی‘ دیکھا تھا اور ان کی بے ساختہ اداکاری کی بہت تعریف کی تھی۔

پروگرام ختم ہونے کے بعد جب دلیپ کمار جنرل مینیجر سرور منیر راؤ کے ہمراہ اسٹوڈیو سے باہر آ رہے تھے تو اتفاق سے میں بھی خبریں پڑھ کر دوسرے اسٹوڈیو سے نکل رہا تھا۔ اتنی بڑی ہستی کو اتنے قریب دیکھ کر میں احتراماً رک گیا تو راؤ صاحب نے بکمال مہربانی ان سے میرا تعارف کرایا۔

اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دلیپ صاحب نے اس طرح اثبات میں سر ہلایا کہ جیسے وہ مجھ سے بہت مل چکے ہوں اور پہچاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔ آپ ان کی میرے ساتھ تصویر سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔

دلیپ کمار اور خالد حمید
دلیپ کمار اور خالد حمید

یہ تو ایک خوش فہمی سہی کہ انہوں نے مجھے ٹی وی پر دیکھا ہو گا۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ میں ان سے تقریباً اس ملاقات سے 10 برس قبل اسلام آباد میں ہی ایک بار مل چکا تھا۔ وہ ایک الگ کہانی ہے۔

یہ غالباً 1988ء کی بات ہے، میں ویسٹرج راولپنڈی میں رہتا تھا۔ وہیں قریب میں ایک صنعتی علاقے میں حبیب ملز تھی جن کے مالک میاں حبیب اللہ سے ہماری دعا سلام ہو گئی جو بڑھتے بڑھتے ایک اچھے تعلق میں بدل گئی۔ میاں صاحب دوستوں کے دوست اور ایک شان دار شخصیت ہیں۔

میں گھر پر ہی تھا کہ ان کا فون آیا۔ "کیا کر رہے ہیں؟"

میں نے کہا، "کچھ خاص نہیں۔"

کہنے لگے کہ "آ جایئے۔"

ان کا گھر بھی وہیں فیکٹری کے قریب ہی تھا۔ میں نے کہا اچھا آتا ہوں۔

کہنے لگے، "گھر پر نہیں، اسلام آباد میں۔"

میں حیران ہوا کہ اسلام آباد کیوں؟ کہنے لگے آپ پتا لکھیے۔

معلوم ہوا کہ ان کے ایک دوست اور کاروباری شخصیت وارث صاحب کا گھر ہے اور پھر بہت رازداری سے کہنے لگے، "کسی سے ذکر نہ کیجیے گا۔ دلیپ صاحب آ رہے ہیں۔ بس چند دوستوں کو دعوت دی ہے، آپ اور بھابھی بھی آجائیں۔"

میں کافی دیر خوشی اور استعجاب کی کیفیت میں رہا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ اُس شخصیت سے ملاقات ہو سکتی ہے جو برسوں سے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے ساتھ ہمارا بھی آئیڈیل رہا ہے۔ جن کی خبریں اور باتیں ہم نے لوگوں سے ایک افسانے کی طرح سنی اور تصویریں بہت شوق سے دیکھی ہیں۔

تھوڑی دیر سکتے میں رہنے کے بعد ہم نے میاں حبیب اللہ صاحب سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے؟ جواب میں انہوں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا، "ارے صاحب بالکل سچ ہے۔ آپ بس جلدی سے آجائیں۔"

لو جناب، ہم نے مونا بیگم کو خوش خبری سنائی اور وہ بھی فوراً جانے کو تیار ہو گئیں۔ لیکن مسئلہ بچوں کا تھا کہ انہیں کس کے پاس چھوڑا جائے؟

ہمارے بیٹے حارث تو خیر سے اتنے بڑے تھے کہ آرام سے دادی کے پاس یا نانی کے گھر رہ جایا کرتے تھے۔ لیکن دونوں بچیاں کافی چھوٹی تھیں۔ مدیحہ تو ماں کی گود میں ہی رہتی تھیں لیکن ربیعہ میری لاڈلی تھیں۔ وہ میرے پاس بہت آرام سے رہتی تھیں۔ اتنا وقت نہیں تھا کہ انہیں نانی کے گھر چھوڑ دیا جائے۔ ویسے بھی وقت شام کا تھا جو ان کے کھانے اور سونے کا ٹائم تھا۔

بچوں کو ایسی تقریب میں لے جانا مناسب نہیں ہوتا اور یہ تاریخی موقع گنوانا بھی کسی طور پر ممکن نہیں تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ان کو ساتھ ہی لے جائیں۔ پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ لہٰذا جو بھی ضروری سامان رکھنا تھا وہ گاڑی میں رکھا اور فوراً روانہ ہو گئے۔

پنڈی پشاور روڈ سے گولڑہ موڑ کے راستے اگر اسلام آباد جائیں تو تقریباً آدھا گھنٹہ لگ ہی جاتا ہے۔ وہی قریب ترین اور تیز ترین راستہ ہے۔ لیکن اس وقت یہ راستہ بہت طویل محسوس ہو رہا تھا۔

پچھلی سیٹ پر بچیاں ماں سے باتیں کرتے کرتے نہ جانے کب سو گئیں اور مونا مجھ سے کیا کیا پوچھتی رہیں، کچھ خبر نہیں تھی۔ میں تو کسی اور دنیا میں کھویا ہوا تھا۔ ایک فلم کی طرح ماضی کے اوراق پلٹ رہے تھے۔

دلیپ کمار کی فلمیں، ان کا انداز، ان کی مسحور کن شخصیت، ان کی مکالموں کی ادائیگی، ان کی آواز کی مٹھاس اور موسیقیت۔ نجانے کیا کچھ یاد آیا اور یاد آتا رہے گا جب تک یہ فن کی دنیا قائم رہے گی۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

جو یاد نہ آئے بھول کے پھر، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

گاڑی اسلام آباد کی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ میں اپنے خیالوں میں گم تھا کہ اچانک مونا کی آواز نے چونکا دیا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ ایف۔5 سیکٹر پیچھے رہ گیا۔

اوہ! میں نے جلدی سے گاڑی موڑی اور وارث صاحب کے گھر کی طرف رخ کر لیا۔

اسلام آباد کی یہ خوبی ہے کہ اگر پتا معلوم ہو تو آپ گم نہیں ہوتے، منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں۔ اور یہی ہوا ہم جلد ہی ان کے گھر کے باہر کھڑے تھے اور شکر ادا کیا کہ دلیپ صاحب ابھی پہنچے نہیں تھے۔ کیوں کہ میاں حبیب اللہ باہر ہی ان کا انتظار کر رہے تھے۔

ان کے ساتھ ہی وارث صاحب بھی کھڑے تھے۔ دونوں نے بڑے تپاک سے ہمارا خیر مقدم کیا اور شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا کہ شکریہ تو آپ کا کہ اس نادر موقع پر ہمیں یاد رکھا۔

حبیب اللہ نے وارث صاحب کا تعارف کرایا۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی دلیپ صاحب کے بڑے عاشقوں میں سے ہیں۔ کاروبار کے سلسلے میں زیادہ تر باہر رہتے ہیں اور آتے جاتے بھارت ضرور جاتے ہیں دلیپ کمار سے ملنے۔ جانے سے پہلے ان کی فرمائش پوچھ لیتے ہیں اور دلیپ صاحب عموماً کسی پاکستانی شاعر و ادیب کی کتاب یا کسی میوے کی فرمائش کرتے ہیں۔ دونوں کے درمیان تعلق بڑھتے بڑھتے بے تکلف دوستی میں بدل گیا ہے اور محبت کا یہ عالم ہے کہ وارث صاحب نے اپنے لیے ایسی بیوی کا انتخاب کیا ہے جس کی شکل سائرہ بانو سے ملتی ہے۔

ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

چوں کہ ہماری دونوں بچیاں ہماری گود میں سو رہی تھیں، ماحول اور لوگ ان کے لیے اجنبی تھے۔ اس لیے ہم ان کو لے کر ڈرائنگ روم کے کونے میں ایک صوفے پر جا بیٹھے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ شور ہوا اور گاڑیوں کا ایک قافلہ آ کر رکا۔ اور تھا جس کا انتظار، وہ شاہ کار آ گیا۔

دل آویز مسکراہٹ لیے ہمارا ہیرو گاڑی سے اترا۔ ساتھ ان کے بھائی اور کچھ اور لوگ بھی تھے۔ باوجود اس کے کہ مہمانوں کو ایک ترتیب سے قطار میں کھڑا کیا گیا تھا۔ لیکن دلیپ کمار کی شخصیت کا طلسم ایسا تھا کہ اچھے اچھے معزز لوگ سب کچھ بھول کر لائن توڑ کر ان کی طرف لپکے۔ ہم تو دور کھڑے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے جو ہمارے لیے بڑا خوبصورت اور بڑا یادگار لمحہ تھا۔

مہمانوں سے ملتے ملاتے دلیپ صاحب دور ایک صوفے پر بیٹھے تو بچے ان کے ارد گرد ہو گئے۔ وہ بھی بچوں سے کھیلنے لگے۔ کبھی ان کو لطیفے سناتے، کبھی ہاتھوں اور رومال سے شکلیں بناتے۔ بچے کھل کھلا کر ہنستے تو وہ بھی خوش ہوتے۔ یہ سادگی دیکھ کر محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اتنی بڑی شخصیت درمیان میں ہے۔

اس دوران وارث صاحب کی نظر ہم پر پڑی تو وہ فوراً آئے اور کہنے لگے، "آپ کی ملاقات ہوئی۔"

میں نے کہا کہ ایک تو ان کے گرد بھیڑ بہت ہے۔ دوسرا ہمارے بچے نیند میں ہیں۔ اس لیے ہم یہیں بیٹھ گئے۔ انہوں نے کمال کیا کہ تھوڑی دیر میں دلیپ صاحب کو لے کر ہماری طرف آ گئے اور ہمارا ایسا تعارف کرایا کہ ہمارے آئیڈیل فن کار ہمارا ہاتھ تھام کر وہیں بیٹھ گئے۔

دلیپ صاحب کا محبت کا یہ بھی ایک انداز تھا کہ مخاطب کا ہاتھ اپنے نرم اور گداز ہاتھوں میں اس طرح دیر تک تھامے رہتے کہ آپ ان کے پیار اور شفقت کی گرمی اور لمس محسوس کر سکتے تھے۔


میں تو ایک خواب کی حالت میں تھا۔ کچھ معلوم نہیں کہ وقت کیسے گزر رہا تھا۔ یہ یاد ہے کہ جب انہوں نے فن کے حوالے سے بات شروع کی تو میں نے کہا کہ آپ کی گفتگو اور مکالموں کی ادائیگی میں ایک خاص ردھم ہوتا ہے۔ تو گویا ہوئے کہ، "کائنات کا سارا نظام ہی ایک ردھم پر چل رہا ہے۔"

کیا برجستہ، جامع اور مختصر جواب تھا۔ ان کا یہ تاریخی جملہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے۔

ان کے ساتھ گزارے ہوئے وہ تمام یادگار لمحات ذہن پر نقش ہیں۔ ان کے گداز اور نرم ہاتھوں کا لمس اور ان کی محبت کی گرمی آج بھی محسوس ہوتی ہے۔

XS
SM
MD
LG