رسائی کے لنکس

معین اختر: 'یہ مرتبہ بلند ملا، جس کو مل گیا' 


فائل فوٹؤ
فائل فوٹؤ

آج یعنی 24 دسمبر کو معین اختر کا 71واں یومِ پیدائش منایا جا رہا ہے۔ ان کی سالگرہ کے دن گوگل نے بھی اپنا ڈوڈل تبدیل کر کے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ٹیلی ویژن، فلم اور اسٹیج کے بے تاج بادشاہ معین اختر کی سالگرہ کے موقع پر معروف براڈکاسٹر خالد حمید کی تحریر۔

معین اختر ٹیلی ویژن، فلم اور اسٹیج کا ایک بے تاج بادشاہ تھا۔ وہ ایک بے مثال اداکار، صداکار اور شوز کا ایسا میزبان تھا جو اپنی باتوں اور مزاح سے لوگوں میں خوشیاں بانٹتا اور ان کی زندگی میں راحت کا سامان کرتا تھا۔

آپ میں سے کم ہی لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ معین اختر ایک اچھا فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ درد مند دل رکھنے والا ایک عظیم انسان بھی تھا جو دکھی انسانیت کی خدمت میں مگن رہتا تھا۔

معین اختر کی سال گرہ کے دن ان کے چند ایک واقعات آپ کی نذر کرتا ہوں۔

سال 1999 تھا اور اسلام آباد کے لیاقت جمنازیم میں پاکستان ٹیلی وژن کی ایوارڈز کی تقریب ہو رہی تھی۔ جس میں 1987 سے 1997 کے درمیان اعلیٰ کارکردگی پر فن کاروں اور کارکنوں کو ایوارڈز دیے جا رہے تھے۔

چوں کہ یہ ایوارڈز 10 سالہ کارکردگی پر دیے جا رہے تھے اس لیے طریقۂ کار یہ تھا کہ پہلے اسٹیشن کی سطح پر مقابلہ ہوتا اور جیتنے والا بڑے مقابلے میں پہنچتا تھا۔

تو اس حوالے سے ہم بھی اسلام آباد اسٹیشن سے جیت کر اس ملکی میلے میں شریک تھے۔ دوسرے اسٹیشنوں سے بھی منتخب ساتھی اسٹیج پر ایک لائن بنائے کھڑے تھے۔

اس تقریب کے مرکزی میزبان معین اختر تھے اور ان کے ساتھ ایک خاتون تھیں۔ جیسے ہی ان کے ہاتھ میں وہ کارڈ آیا جس میں ایوارڈ حاصل کرنے والے کا نام ہوتا ہے، انہوں نے اسے کھولے بغیر اپنی روایتی عادت کے مطابق دلچسپی اور اضطراب پیدا کرنے کے لیے کہا کہ ذرا ٹہریے! ہم عوام کی رائے لیتے ہیں۔ پھر وہ ہر ایک نیوز کاسٹر کے پاس آئے اور لوگوں سے پوچھا کہ تالیوں سے بتائیں کہ کون حق دار ہے۔

اب کچھ پر زیادہ اور کچھ پر کم تالیاں بجیں۔ اب یہ محض اتفاق ہی تھا یا لوگوں کی محبت کہ جب معین میرے پاس آئے تو پورے ہال نے والہانہ انداز میں تالیاں بجا کر میرے حق میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔

معین نے کہا بالکل ٹھیک اور شاید انہیں یقین بھی تھا کہ کارڈ پر بھی میرا ہی نام ہو گا۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے کارڈ کھولا وہ سکتے میں آ گئے اور چند لمحے توقف کے بعد انہوں نے کارڈ ساتھی کمپیئر کو دے دیا کہ آپ اناؤنس کریں۔

اب وہاں نام ایک خاتون کا تھا جنہیں خبریں پڑھتے ہوئے محض دو برس ہوئے تھے اور کبھی کبھی اسکرین پر آتی تھیں۔ اور یہ یاد رہے کہ یہ ایوارڈز دس سالہ کارکردگی پر دیے جا رہے تھے۔ مگر کرنے والوں نے اپنا فیصلہ کر دیا۔

اب اس پر نہ صرف معین اختر حیران ہوئے بلکہ پورے ہال پر سناٹا چھا گیا۔ مگر کیا ہو سکتا تھا۔ تقریب کے فوری بعد معین میرے پاس آئے اور اس نا انصافی پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ تم دو دن بعد کراچی آؤ، مجھے تمہارا انٹرویو کرنا ہے۔ وہ اس زمانے میں ہر ہفتے کسی مہمان کو بلا کر انٹرویو کرتے تھے جو پی ٹی وی پر نشر ہوتا تھا۔

میں وعدے کے مطابق کراچی ان کے اسٹوڈیو پہنچ گیا تو انٹرویو میں معین نے سب سے پہلے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا، "مبارک ہو خالد تمہیں یہ ایوارڈ نہیں ملا۔ کیوں کہ ایسے ایوارڈ کا نہ ملنا ہی تمہارے حق میں بہتر تھا۔"

میں نے کہا کہ نہیں میر ا اصل ایوارڈ تو عوام کی وہ پُرجوش تالیاں تھیں جو انہوں نے آپ کے سوال پر بجائیں اور اس طرح آپ نے یہ ایوارڈ مجھے دلوا دیا۔

یہ انٹرویو کئی بار نشر ہوا باوجود اس کے کہ اس میں پی ٹی وی کے ایوارڈز پر طنز تھا۔

اس دن مجھے معین کے اس حساس دل کا یقین ہوا جس کا ذکر میں سنتا رہتا تھا۔ انہوں نے فوراً اس بات کا اندازہ کر لیا کہ میرے ساتھ سراسر زیادتی ہوئی ہے اور وہ کس طرح اس کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا میرا انٹرویو کر کے انہوں نے نہ صرف مجھے حوصلہ دیا بلکہ ناظرین کو بھی ایوارڈز کے متعلق اپنی رائے کے بارے میں بتا دیا۔

معین کے اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں۔ جب انہوں نے اپنے نام اور شہرت کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے نادار فن کاروں اور ضرورت مندوں کی مدد کی۔

وہ معروف فلم اسٹار اور کامیڈین لہری کے بڑے پرستار تھے بلکہ بہت عرصے تک وہ ان کی آواز میں پیروڈی اور اسٹیج کمپیئرنگ بھی کرتے رہے۔

فلمیں نہ ملنے کے باعث لہری کسم پرسی کی حالت میں تھے اور بیمار رہتے تھے۔ تو ایسے میں معین ان کی ہر طرح مدد کرتے اور مزاج پرسی کرتے رہتے تھے۔

ان ہی دنوں معین اختر ایک پروگرام کرنے لندن گئے ہوئے تھے جہاں انہیں اطلاع ملی کہ لہری کو فالج ہو گیا ہے اور کوئی اسپتال انہیں بغیر پیسے کے داخل کرنے کو تیار نہیں ہے۔

معین کو جیسے ہی یہ اطلاع ملی تو وہ فوراً پروگرام کے منتظمین کے پاس گئے جن میں کراچی کی ایک بڑی شخصیت اور با رسوخ آدمی بھی شامل تھے اور ان سے کہا کہ میں اس وقت تک پروگرام نہیں کروں گا جب تک لہری صاحب اسپتال داخل نہیں ہو جاتے اور ان کا علاج نہیں شروع ہو جاتا۔

وہاں کھلبلی مچ گئی اور فون بجنے لگے اور ہنگامی طور پر لہری مرحوم کو اسپتال پہنچایا گیا اور جب یہ تصدیق ہو گئی کی ان کی دیکھ بھال اور علاج شروع ہو گیا ہے تب ہی معین اسٹیج پر آئے اور پروگرام شروع کیا۔

پھر جب لہری صحت یاب ہو گئے تو معین نے ان کے لیے ان ہی کے ساتھ مل کر کئی اسٹیج ڈرامے کیے جن میں 'لہری اِن ٹربل' بہت مقبول ہوا تھا اور اس طرح لہری صاحب کے مالی معاملات بہتر ہوئے۔

'جس سی ڈی کی قیمت 30 روپے بھی نہیں تھی وہ سیکڑوں ڈالر میں بیچ دی'

مشہور گلوکار مجیب عالم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ "میں ایک دن معین کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ سخت پریشانی ہے کام بالکل نہیں مل رہا۔ تو معین نے مجھے فوراً کہا کہ اگلے ٹور پر میرے ساتھ یورپ اور امریکہ چلو، میں نے حامی بھر لی۔"

ان کے بقول وہاں ہر پروگرام میں معین نے ان کا شان دار تعارف کراتے اور گانوں کے بعد اسٹیج پر آ کر ان کے گانوں کی سی ڈیز نیلام کرتے اور جس سی ڈی کی قیمت 30 روپے بھی نہیں تھی وہ سیکڑوں ڈالر میں بیچ دیتے۔

مجیب عالم نے انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ آج جس گھر میں وہ بیٹھے ہوئے ہیں وہ انہوں نے اس دورے کی کمائی سے ہی بنایا تھا۔

ماضی کی مشہور فلم اسٹار صبیحہ خانم معین کو اپنا بڑا محسن مانتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے حالات بہت خراب تھے اور میں بیمار تھی۔ معین میرے پاس لاہور آیا۔ مجھے نہ صرف حوصلہ اور تسلی دی بلکہ مجھے قرآن کی کچھ سورتیں بتائیں کہ یہ پڑھا کریں اور پھر اس نے مجھے ٹی وی پر کام کرنے کے لیے آمادہ کیا۔

صبیحہ خانم کے بقول میرے حامی بھرنے پر اس نے ٹی وی پروڈیوسرز سے بات کی اور یوں میں نے پہلی مرتبہ ٹی وی پر اداکاری شروع کی اور میرے حالات بدل گئے۔

سب ہی جانتے ہیں کہ معین اسٹیج شو کرنے کا بڑا معاوضہ لیتے تھے لیکن کسی کا حق مار کر نہیں بلکہ جائز طریقے سے۔ ورجینیا میں میرے ایک جاننے والے محمد اسلم ہیں جو ریستوران چلاتے ہیں۔ وہ لاہور کے اسٹیج اداکار رہ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں نے ایک شو کرنے کا پروگرام بنایا اور معین سے معاہدہ کر لیا۔

پلان کے مطابق معین بذریعہ جہاز ایک دن پہلے لاہور پہنچ گئے اور ہوٹل میں قیام کیا۔ سارے پروگرام کے بارے میں بات چیت ہوئی لیکن قسمت کی بات ہے کہ دوسرے دن شہر میں حکومت کے خلاف کوئی احتجاج ہوا اور ہنگامہ آرائی کے بعد جلسے جلوسوں پر پابندی لگ گئی اور ٹریفک بند کر دیا گیا۔

اب ظاہر ہے شو کے لیے کون آتا؟ معین شو کے لیے آئے تو ہال خالی تھا جس پر وہ بہت پریشان ہوئے۔ اسلم کے بقول انہوں نے انہیں کہا کہ یہ اتفاق ہے کہ ایسا ہوا ہے لیکن آپ کا شکریہ کہ آپ اس شو میں آئے اور معاہدے کی رقم تقریباً ڈیڑھ لاکھ ان کے حوالے کی۔

معین نے کہا کہ شو تو ہوا نہیں، نہ ٹکٹ بکے۔ لہٰذا آمدنی تو کوئی ہوئی نہیں۔ میرے اوپر یہ رقم حرام ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے پوری رقم واپس کر دی اور کہا کہ بس آنے جانے اور ٹھیرنے کا خرچہ تمہارا ہے۔ باقی خدا حافظ۔ یہ کہہ کر معین واپس چلے گئے۔

معین اختر کو سگریٹ کی بڑی لت تھی جس نے ان کے پھیپھڑوں اور دل کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ اور باوجود ڈاکٹروں کی ہدایت کے انہوں نے سگریٹ نوشی آخر وقت تک ترک نہ کی بلکہ کوئی اگر سمجھاتا بھی تھا تو وہ ناراض ہو جاتے تھے۔

یہاں تک کہ انہیں دل کی تکلیف ہو گئی۔ سب نے کہا کہ باہر چلے جائیں۔ کہنے لگے کہ اگر اللہ نے شفا دینی ہے تو یہاں ہی دے دے گا۔ ایک سے ایک اعلٰی ڈاکٹر اور اسپتال پاکستان میں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی کے ایک اسپتال میں ان کا آپریشن ہوا۔

ڈاکٹروں نے بتایا کہ آپ کا دل صرف 24 فی صد کام کر رہا ہے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کام بالکل نہ کریں اور آرام کریں۔ وہ ڈاکٹروں کو تسلی دے کر گھر آ گئے۔

دوسرے دن گاڑی نکالی اور خود ڈرائیو کر کے حیدر آباد روانہ ہو گئے کیوں کہ انہوں نے کینسر کے ایک مریض بچے سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کے امدادی شو میں ضرور آئیں گے۔

معین نے بغیر معاوضہ یہ شو کیا اور اسی رات واپس آ گئے۔

'ہمیں آپ کی بہت ضرورت ہے'

اس کے کچھ عرصے بعد وہ امریکہ ایک شو کرنے کے لیے آئے۔ میں بھی اس میں مدعو تھا۔ معین نے بڑی محبت سے مجھے اسٹیج پر متعارف کرایا اور میں نے بھی ان کے لیے توصیفی الفاظ کہے۔

شو کے بعد میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ کے دل کی یہ حالت ہے تو اتنا کام نہ کریں۔ ہمیں آپ کی بہت ضرورت ہے۔

کہنے لگے اللہ نے جتنی زندگی لکھی ہے اتنی تو جیوں گا لیکن میں ایسی لمبی زندگی نہیں چاہتا کہ بسترِ مرگ پر پڑا ہوں۔ لوگ ترس کھا رہے ہوں، دعائیں کر رہے ہوں اور چندے اکٹھے کر رہے ہوں۔ چلتے پھرتے کام کرتے دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں۔ اور ہوا بھی یہی۔ یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔

معین کی عادت تھی کہ وہ پوری رات شو کرتے تھے، جاگتے تھے اور صبح دیر تک سوتے تھے اور پھر تیار ہو کر کام پر چلے جاتے تھے۔

اپریل کا مہینہ تھا۔ بائیس تاریخ تھی۔ انہیں ایک ڈرامے کی ریکارڈنگ کے لیے جانا تھا۔ معمول کے مطابق نہا دھو کر تیار ہوئے۔ لیکن دل نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہیں بیٹھے بیٹھے رخصت ہو گئے۔

ٹی وی پر سب انتظار کرتے رہے لیکن معین جا چکا تھا۔ خواہش کے مطابق چلتے ہاتھ پیروں اور کام کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ لیکن ایسی قابلِ رشک زندگی گزار گیا جس کی ہر ایک تمنا کرتا ہے۔

پاکستان، بھارت اور دنیا بھر کے اردو ٹی وی چینل تین روز تک اس کی یاد مناتے رہے اور اب بھی ہر سال اس کو یاد کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG