رسائی کے لنکس

وقتی طور پر عدم ادائگی کا بحران ٹل گیا ہے: خرم حسین


معروف صحافی اور ’ڈان‘ اخبار کے بزنس ایڈیٹر، خرم حسین نے جمعے کے روز ’وائس آف امریکا‘ کے ’فیس بک لائیو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے ابتدائی 100 دنوں میں ایسے اقدامات کئے ہیں جن سے معاشی بحران سے نمٹنے میں مدد ملی ہے‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’جب حکومت آئی تھی تو ملک ادائگیوں میں عدم توازن کے بحران کی جانب بڑھ رہا تھا‘‘۔

بقول اُن کے، ’’جس تیزی سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر گر رہے تھے، تو یوں لگ رہا تھا کہ پاکستان میں دسمبر میں بحران آ جاتا، جس سے بڑے پیمانے پر بینکنگ کا نظام متاثر ہوتا۔ نیز، ملک کی درآمدات اور تیل کی ترسیل پر فرق پڑتا‘‘۔خرم حسین کا کہنا تھا کہ ’’اس صورت حال کو قابو میں کر لیا گیا ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد ’’دوست ممالک سے عارضی طور پر ڈالرز کا بندوبست کر لیا ہے، جس سے وقتی طور پر بحران ٹل گیا ہے‘‘۔

لیکن، ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ ساری کوششیں عارضی ہیں۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم مسلسل ’کینسر‘ کے مرض کا علاج ’ڈسپرین‘ سے کر رہے ہیں‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’حکومت کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ کس قسم کی اصلاحات لا سکتی ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’سننے میں آ رہا ہے کہ کچھ سرکاری شعبوں میں اصلاحات لانے کے لئے حکومت کے پاس منصوبہ ہے، جسے جلد ہی لایا جائے گا‘‘۔

خرم حسین کے مطابق، دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے پاس مستقبل میں برآمدات بڑھانے اور تجارت کے متعلق کیا پالیسی پلان ہے۔

تحریک انصاف کے ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’ان دعوؤں کو پورا کرنے کے لئے پیسے کہاں سے لائے جائیں گے؟ یہ سوال تو ان کے ذہن میں بھی ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک ہاؤسنگ کے پراجیکٹ کی بات ہے، تو اس میں، ان کی دانست میں، اس ہاؤسنگ پروگرام کو گورنمٹ پورا فنڈ نہیں کرے گی اور صرف زمین کا انتظام کرے گی، باقی نجی شعبے کا کام ہوگا کہ وہ اس پر گھر کھڑے کر کے اور بیچ کر اپنے پیسے پورے کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کا کیا ڈھانچہ ہوگا۔ کیوں کہ ایسی ہاؤسنگ سکیمیں پہلے بھی آئی ہیں۔

خرم حسین نے کہا کہ ’’حکومت نے انڈسٹری سے یہ وعدہ کیا ہے کہ گیس کی یکساں قیمتیں نافذ کی جائیں گی۔ اس پر دیکھنا پڑے گا کیوں کہ پاکستان کی گیس کے وسائل بہت تیزی سے ختم ہو رہے ہیں؛ اور ہم در آمد شدہ ایل این جی پر انحصار کرتے ہیں جو کہ دوگنی قیمت پر آ رہی ہے۔ تو دیکھنا ہوگا کہ یہ کیسے اپنے وعدے کو پورا کریں گے‘‘۔

ڈیم کے معاملے میں خرم حسین نے کہا کہ انہوں نے کہ ’’میگا انفراسٹرکچر عوامی چندے سے کبھی نہیں بن سکتے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایتھوپیا کی مثال دی جاتی ہے۔ مگر اس مثال سے بھی ہمیں پتا چلتا ہے کہ ایسی کوششیں ناکام رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پچھلے 10 برسوں میں بھاشا ڈیم کے لئے انٹرنیشنل کنسورشیم بنانے کے لئے ہر جگہ گیا ہے، یو ایس ایڈ، ورلڈ بینک اور نجی شعبے سے بھی بات ہوئی ہے اور ہمیں ہر جگہ سے یہی جواب ملا ہے کہ اس ڈیم کے لئے فنڈنگ ممکن نہیں ہے۔ چینیوں سے بھی اس بارے میں بات ہوئی ہے اور وہاں سے بھی مثبت جواب نہیں ملا اور یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ ان کی جو شرائط تھیں وہ حکومت پاکستان کو منظور نہیں تھیں۔

اگر آئی ایم ایف نے قرضہ نہ دیا تو ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ دنیا میں قرض حاصل کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے علاوہ آخری دروازہ اور کوئی نہیں ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کو ہر چند برس بعد ادائگیوں میں عدم توازن کے بحران کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے، خرم حسین نے کہا کہ ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تجارت میں خسارہ ہے۔ ہم بہت کم برآمدات کرتے ہیں اور بہت زیادہ درآمدات کرتے ہیں‘‘۔

اسی کی دہائی میں بھی پاکستان کی سب سے بڑی برآمدات کپاس سے متعلق تھیں اور آج بھی ہماری برآمدات وہی ہیں۔1980 میں ہم بھارت کے ساتھ مقابلہ کرتے تھے، آج ہم بنگلہ دیش اور ویتنام کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے مسابقتی ممالک سے ایسے ہی تجارت کا مقابلہ ہارتے گئے تو کل کو ڈالر کی قیمت ہزار روپے تک بھی جا سکتی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ ملک میں کہ اس وقت تاجر طبقے میں دوبارہ اعتماد کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے تاکہ ملک میں تجارتی جمود ختم ہو سکے، خرم حسین کا کہنا تھا کہ ’’اگر حکومت وقتی خساروں کو اس حد تک قابو کر لیتی ہے کہ اگلے تین چار یا پانچ برس کے لئے ہم محفوظ رہیں اور یہ بھی کہ تاجروں کو یہ پتا چل جائے کہ پالیسیوں میں تسلسل قائم رہے گا، تو معیشت کا پہیہ دوبارہ سے چل سکتا ہے‘‘۔

اس کے علاوہ، تاجروں کو دوسرے ممالک کے ساتھ ہونے والے کچھ تجارتی معاہدوں پر اعتراضات ہیں کہ یہ ان کے مفادات کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جو بیرونی سرمایہ کار ہیں انہیں بھی پالیسیوں میں تسلسل چاہئے‘‘۔

XS
SM
MD
LG