توہین رسالت کے الزام میں گرفتار دو عیسائی بھائیوں کو نامعلوم افراد نے پیر کے روزخودکار ہتھیاروں سے حملہ کر کے اُس وقت ہلاک کردیا جب فیصل آباد کی ایک عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بعد پولیس انھیں ہتھکڑیاں پہنا کر واپس جیل کی طرف لے جا رہی تھی۔
وفاقی وزیر برائے اقلیتی اُمور شہباز بھٹی نے بتایا کہ دونوں بھائیوں کو ایک ماہ قبل شہر میں مبینہ طور پر ایسے اشتہارات تقسیم کرتے وقت گرفتار کیا گیا تھا جن پر پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز الفاظ درج تھے اور ان پمفلٹس پر دونوں بھائیوں کے نام بھی درج تھے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ فیصل آباد کی مسجدوں میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے دونوں مقتول بھائیوں پر حملہ کرنے کے اعلانات بھی کیے گئے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ دونوں افراد کے رشتہ داروں نے توہین رسالت کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں بھائی بے گناہ تھے۔
مقامی پولیس نے بتایا کہ حملہ آور دو تھے اور اُن کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔ خیال رہے کہ پاکستان میں آباد اقلیتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں توہین رسالت کے قانون پر تنقید اور اس کی منسوخی کا مطالبہ کرتی آئی ہیں جو اُن کے بقول بااثر افراد اپنے مخالفین خصوصاََ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے بقول اُنھیں بھی یقین ہے کہ مقتول بھائی بے قصور تھے کیوں کہ کوئی بھی شخص توہین آمیز الفاظ تحریر کر کے اُس کے نیچے اپنا نام کبھی نہیں لکھے گا اور انھیں یقین ہے کہ کسی نے ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے اُنھیں اس جرم میں گرفتار کروایا تھا۔ لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک طویل عرصے تک توہین رسالت کے قانون کی منسوخی کا مطالبہ کرنے والے وفاقی وزیر شہباز بھٹی اقلیتی اُمور کی وزارت کا منصب سنبھالنے کے بعد اس مطالبے سے بظاہر دستبردار ہوں گئے ہیں ۔ ناقدین اس کی بڑی وجہ مسلمان مذہبی حلقوں کی طرف سے حکومت پر دباؤ بیان کرتے ہیں جن میں مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت علما اسلام سر فہرست ہے جو مرکز میں حکمران پیپلز پارٹی کی ایک اہم اتحادی ہے۔