رسائی کے لنکس

مقدمات جلد نمٹانے کیلئے خیبر پختونخواہ حکومت کی تجاویز


پاکستان کی عدالت عظمیٰ۔ فائل فوٹو
پاکستان کی عدالت عظمیٰ۔ فائل فوٹو

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ دیوانی مقدمات میں انصاف کی تاخیراور وقت کے ضیاع کو روکنے اور تیز رفتاری سے مقدمات نمٹانے کیلئے حکومت نے سول پروسیجر کوڈ 1908 کے تحت مختلف شیڈول/ کوڈز میں متعدد ترامیم تجویز کی ہی۔

انہوں نے سول پروسیجر کوڈ کے رولز میں ترامیم کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سی پی سی 1908میں بنا تھا تب سے آج تک تقریباً 110سالوں سے یہ اسی طرح چل رہا ہے حالانکہ وقت کے ساتھ حالات کو دیکھتے ہوئے اس میں تبدیلی ہونی چاہئے تھی۔

صوبائی حکومت نے اس قانون کے رولز میں ترامیم تجویز کی ہیں جن کی صوبائی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ مذکورہ ترامیم میں دیوانی مقدمات کیلئے مدت کا تعین کیا گیا ہے جس سے مقدمات کی طوالت کا خاتمہ ہو گا اور زیر التواء مقدمات کا بھی آسان حل نکلے گا۔

ملک کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی صوبائی حکومت نے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے رولز میں ترامیم تجویز کی ہیں۔انہوں نے عندیہ دیا کہ صوبائی حکومت کرمینل قانون میں بھی ترامیم تیار کر رہی ہے جو وفاقی حکومت کو بھیجی جائیں گی ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔صوبائی وزیر قانون امتیاز شاہد قریشی،ایڈوکیٹ جنرل اور اراکین صوبائی اسمبلی بھی اس موقع پر موجود تھے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مقدمات کے طویل اور پیچیدہ طریق کار اور ٹائم لائن نہ ہونے کی وجہ سے دیوانی مقدمات میں شامل فریق خود دیوانہ ہو جاتا ہے مگر کئی دہائیوں تک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا جو با عث تشویش تھا۔ اس لئے صوبائی حکومت نے عدالت اور دیگر متعلقہ اداروں سے طویل مشاورت کے بعد قابل عمل ترامیم تجویز کی ہیں ۔

پرویز خٹک نے مذکورہ ترامیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء اور ان کے مؤکلوں کی حاضری یقینی بنانے، مقدمات نمٹانے کے عمل کو تیز کرنے اور وقت کے ضیاع کی روک تھام کا نظام وضع کیا گیا ہے جس کے تحت مقدمات کے فریقین کو متعین تاریخیں دی جائیں گی جس سے مقدمے میں تاخیر کا خاتمہ ہو گا۔ وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ 60دن میں عدالت پلیڈنگ کا مرحلہ مکمل کرے گی اور متفرق درخواستوں پر عدالت کا فیصلہ قابل اپیل اور قابل واپسی نہیں ہو گا سوائے پورے مقدمے کی از سر نو سماعت کی صورت میں۔ اس طرح متفرق درخواستوں کا فیصلہ 60دن میں ہو گا۔

پلیڈنگ کے مرحلے کے بعد دستاویزات کی تفتیش اور معائنے کیلئے 30دن کی مدت کا تعین کیا گیا ہے جس میں عدالت چاہے تو سمری مقدمہ سنا سکتی ہے۔ٹرائل کے مرحلے میں سات دن کے اندر مقدمے کی حدود کا تعین کیا جائے گا اور عدالت روزا نہ کی بنیاد پر سماعت کرکے ایک سال میں مقدمے کا تصفیہ کرے گی۔وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ تاریخ میں پہلی بار دیوانی مقدمات میں مدت کا تعین کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترامیم کے مطابق جو فریق مقدمے کی پیروی اور عدالت کے احکامات ماننے میں ناکام ہو گا، عدالت اس پر جرمانہ عائد کرے گی۔

اس طریقہ سے تاخیری حربوں کے استعمال اور عدالت کی حکم عدولی کا خاتمہ ہو گا ۔علاوہ ازیں اپیلٹ عدالت کو اپیلٹ سٹیج پر اضافی شہادت ریکارڈ کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے اپیلٹ عدالت مقدمہ سماعت یا شہادت ریکارڈ کرنے کیلئے ماتحت عدالت میں بھیجتی تھی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پہلے سے موجود رولز میں فیصلہ سنانے کیلئے مدت کا تعین نہیں تھا مگر اب سول اور اپیلٹ عدالتیں 15دن میں فیصلہ سنائیں گی ۔

فیصلے کے اجراء کو کیس مینجمنٹ اور شیڈنگ کانفرنس کے تحت لایا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے مدیون ڈگری کے کمپیوٹرائز شناختی کارڈ کا بلاک کرنا بھی شامل ہے۔پرویز خٹک نے کہا کہ صوبائی حکومت عدالت کو درکار ججز اور دیگر ضروریات پورا کرنے کیلئے بھی تیار ہے۔ وہ اس سلسلے میں چیف سیکرٹری سے کہہ چکے ہیں کہ ہائی کورٹ سے رابطہ کریں صوبائی حکومت اپنے اختیارات کے مطابق ضرورت پوری کرے گی۔ وزیر اعلیٰ نے سرکاری وکلاء کی طرف سے غیر حاضری کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلے چونکہ قانون موجود نہیں تھا تو بلا ضرورت تاخیر ہوتی تھی ۔ مگر اس ترمیم شدہ قانون کے بعد سرکاری وکلاء کی طرف سے مقدمے میں تاخیر ماضی کا حصہ بن جائے گی ۔ قصور میں بچی کے قتل کے تناظر میں متعلقہ قانون کو بہتر کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس سلسلے میں قانون پہلے سے موجود ہے۔ تاہم اس قانون میں تبدیلی یا ترمیم وفاقی حکومت کا کام ہے۔ صوبائی حکومت اس ضمن میں اپنی سفارشات وفاق کو بھیجے گی ۔

پرویز خٹک نے کہا کہ ہمارے صوبے میں پولیس آزاد اور بااختیار ہے ابھی تک جتنے کیسز بھی سامنے آئے ہیں پولیس نے تیز رفتاری دکھائی ہے۔ ہماری پولیس اپنا کام ٹھیک کر رہی ہے۔ ہاں اگر نہیں کرے گی تو پھر صوبائی حکومت پوچھے گی ۔

فاٹا کے انضمام کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کمیٹی فاٹا کے 2018میں خیبر پختونخوا میں انضمام کا فیصلہ کر چکی تھی ۔ وہاں 2018میں انتخابات ہونے تھے مگر کمیٹی کے فیصلوں کا مکمل نفاذ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہمیں خوشی ہے کہ عدالتی اختیار کو فاٹا تک توسیع دی گئی ہے۔ تاہم یہ کمیٹی کے فیصلوں کا ایک حصہ ہے، مکمل فیصلوں پر عملدر آمد نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ انضمام میں جتنی تاخیر ہو گی ، ملک کیلئے نقصان ہو گا۔ کچھ لوگ چاہتے ہی نہیں کہ فاٹا صوبے کا حصہ بنے۔ انضمام نہ ہونے کی صورت میں سیاسی مداخلت شروع ہو گی اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG