شمالی شام میں اکتوبر میں شروع ہونے والی ترک فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں شام کے دو لاکھ سے زیادہ شہری شمالی عراق میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔ پناہ گزین اپنا سب مال اسباب پیچھے چھوڑ چکے ہیں، اس لیے دنیا بھر کے لوگ ان کی مدد کے لیے سامنے آ رہے ہیں۔
عراق میں حال ہی میں نقل مکانی کر کے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے عطیے میں دی گئی چیزوں سے ایک چھوٹی سی بیسمنٹ اور گیراج بھر چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مدد کی ایک اپیل کے تھوڑی ہی دیر بعد دنیا بھر سے ہر قسم کی رسد سے بھرے ڈبے پہنچنا شروع ہو گئے۔
اس مہم کے آرگنائزر نجیر مزگین زیباری کا کہنا ہے کہ یہ امداد ناروے سے، کینیڈا سے، پوری دنیا سے یہاں پہنچی ہے۔ لگ بھگ 240 باکسز ٹیکساس کے ایک کرد گروپ نے بھیجے ہیں، جو اس کام میں ہماری مدد کر رہا ہے۔ ہم نے دستانے، ڈائپرز اور ہزاروں چیزیں اکٹھی کی ہیں۔ ہم نے لگ بھگ 2600 پاؤنڈز کا سامان اکٹھا کیا ہے۔
منتظمین اور رضاکاروں کا کہنا ہے کہ اب تک انہوں نے جتنا زیادہ سامان اکٹھا کیا ہے انہیں اس کی توقع نہیں تھی۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ دنیا بھر کے کرد مدد کو بڑھیں گے کیوں کہ ان میں سے بیشتر اس سے قبل ایسی صورت حال سے گزر چکے ہیں۔
ایک آرگنائزر پروین نعمان کہتی ہیں کہ ہمیں ہر ایک پر فخر ہے اور ہم ان رضاکاروں اور ہر اس شخص کا جس نے عطیہ دیا پوری طرح سے شکریہ ادا کر ہی نہیں سکتے۔ ہمیں اس کی توقع نہیں تھی۔ لیکن ہمیں فخر ہے کہ ہم اپنے ہم وطن بہن بھائیوں کی مدد کر سکے۔
عطیات کی اشیا میں حفظان صحت کی مصنوعات، کپڑے، جوتے کمبل اور دوسری روزمرہ کی اشیائے ضروريات شامل ہیں۔ لیکن 26000 ہزاروں پاؤنڈ وزنی امداد کو عراق میں موجود پناہ گزینوں تک پہنچانا مشکل ہو سکتا ہے۔
آرگنائزر نجیر مزگین زیباری کہتے ہیں کہ یہ سب چیزیں بحری جہاز پر دو کنٹینرز میں عراق کے کرد علاقے میں شام کے علاقے روجاوا کے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے بھیجی جائیں گی اور اس میں تیس دن لگیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ ان تک پہنچ جائیں گی۔
یہ ہے ہزاروں کی مدد کی امیدوں میں انسانیت کا ایک سادہ سا اقدام۔