رسائی کے لنکس

پاکستان لٹریچر فیسٹیول؛ ’کیا صرف کمپنی بہادر کی وجہ سے خاموش رہا جا سکتا ہے؟‘


ادبی میلے کے دوسرے روز ایک نشست صحافی عاصمہ شیرازی کی کتاب ‘کہانی بڑے گھر کی’ رونمائی پر رکھی گئی تھی۔
ادبی میلے کے دوسرے روز ایک نشست صحافی عاصمہ شیرازی کی کتاب ‘کہانی بڑے گھر کی’ رونمائی پر رکھی گئی تھی۔

پنجاب کے صوبائی دارلحکومت لاہور میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے تعاون سے الحمرا آرٹس کونسل میں تین روزہ پاکستان لٹریچر میلہ 2023 (پی ایل ایف) جاری ہے جس میں مختلف فکری نشستوں، ادب، شاعری اور فنونِ لطفیہ پر محافل منعقد کی گئیں۔

ادبی میلے میں کتابوں کی رونمائی کے ساتھ ساتھ موسیقی کے پروگراموں کو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں علی ظفر، علی عظمت، سائیں ظہور، ساحر علی بگا، نتاشہ بیگ اور دیگر فنکار اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔

ادبی میلے کے دوسرے روز ایک نشست صحافی عاصمہ شیرازی کی کتاب ‘کہانی بڑے گھر کی’ رونمائی پر رکھی گئی تھی جو کہ ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔

نشست کی صدارت کرتے ہوئے صحافی وسعت اللہ خان نے کہا کہ حبس کا موسم، چاول کی کاشت اور ذہنی تخلیق کے لیے یہ بہترین موسم ہے۔

اُن کہنا تھا کہ پاکستان میں کمپنی بہادر طاقت کا منبع ہے، تو کیا صرف کمپنی بہادر کی وجہ سے خاموش رہا جا سکتا ہے؟

وسعت اللہ کا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے فیصلے وہ سیاست دان اور جنرل کرتے ہیں جو غالباً ایف اے پاس ہوتے ہیں۔ قوم کے فیصلے وردی والے اور بغیر وردی والے کرتے ہیں، جن کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ پڑھتے نہیں ہیں۔

دورانِ گفتگو اُنہوں نے بتایا کہ شریف برادران کے بارے میں تاثر ہے کہ اِن کے مہمان خانے میں ٹیلیفون ڈائریکٹری کے علاوہ کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی گئی۔

صحافی عاصمہ شیرازی نے گفتگو کا حصہ بنتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں گھوم پھر کر جمہوریت اور آمریت پر باتیں ہوتی ہیں۔ اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہائبرڈ رجیم میں رہتے ہیں۔

ان کے بقول انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی پر کالم لکھا تو تنقید شروع ہو گئی۔ گزشتہ چار برس کے دوران لوگوں کے لکھنے پر مکمل طور پر پابندی تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے نزدیک اَب اسٹیبلشمنٹ کے معنی بدل گئے ہیں۔ قلم آمریت کے دور میں لکھنا سیکھ چکا ہے۔ اب قلم کو فسطائیت کے دور میں بھی لکھنا سیکھنا ہو گا۔ اَب گالم گلوچ کو بھی آزادی اظہار کہا جاتا ہے۔

'حکمرانوں کو مطالعہ کرنے کی عادت ہو تو وہ ایک ہی غلطی بار بار نہیں کرتے'

نشست میں شامل کالم نویس اور تجزیہ کا مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حکمران اپنے مطلب کی چیز پڑھ لیتے ہیں۔ انہوں نے پڑھنے کے لیے بندے رکھے ہوئے ہیں جو مطلب کی چیزیں ڈھونڈ کر حکمرانوں کو دیتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر حکمرانوں کو مطالعہ کرنے کی عادت ہو تو وہ ایک ہی غلطی بار بار نہیں کرتے بلکہ تاریخ سے کچھ سیکھتے۔

مجیب الرحمٰن شامی نے بتایا کہ جنرل ضیا کے دور میں وہ ہر چیز خود پڑھتے تھے۔ کالم پر اُن کا ردِعمل دس گیارہ بجے تک سامنے آ جاتا تھا کہ وہ خوش ہوئے یا نہیں، جس کی کچھ جسمانی نشانیاں بھی سامنے آ جاتی تھیں۔

نشست میں شریک کالم نویس اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ان کی کالموں پر مبنی کتاب کے سرورق پر معصومانہ سی شرارت تھی جس میں جنرل باجوہ کرسی پر بیٹھے تھے اور عمران خان نیچے بیٹھے کھلونوں سے کھیل رہے تھے، جس پر پابندی لگا دی گئی۔ سرورق تبدیل کیا تو کتاب کو اجازت مل گئی۔ جب اخبارات تھوڑے گستاخ تھے تو اُنہیں زرد صحافت کہا جاتا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ آج کا کالم اظہاریہ ہے۔ کالم موجودہ دور کی مقبول ترین ادبی صنف ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ صحافت اور ادب کے اُستادوں نے سکھایا ہے کہ کہنے کا انداز کیا ہونا چاہیے۔ آمریت اور فسطائیت کے دور میں بھی اظہار کا انداز بہتر ہونا چاہیے۔ بات تو اشاروں سے بھی ہو جاتی ہے۔

نشست میں شامل مصنفہ اور کالم نگار نورالہدیٰ شاہ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی بہادر سرکار کہتی ہے کہ یہ سیاست دان جاہل ہیں۔ انہیں یہاں سے نکالو۔ اگر ساری رات حکمران مطالعے میں گزاریں گے تو صبح عوام کو دستیاب نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمپنی بہادر شاید زیادہ انگریزی نہیں جانتی جس کا اندازہ محمد حنیف کی کتاب’پھٹے آموں کا قصہ’ پر طوفان کھڑا ہونے سے ہوا۔

'فوجی جنرل بار بار آئین اس لیے توڑتے ہیں کہ سیاست دان آپس میں لڑیں'

ادبی میلے کے دوسرے روز نوجوانوں کے نام پر ایک دوسری نشست میں صحافی، تجزیہ کار اور کالم نویس حامد میر نے کہا کہ نوجوان غصہ اور مایوس ہونے کے باوجود حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ نوجوان سیاست دانوں سے مایوس ہیں۔ بہت سے نوجوان ابھی بھی پاکستان نہیں چھوڑنا چاہتے۔ حکمران اِن پر معاشی بوجھ بڑھانے کے بجائے اپنے اخراجات گھٹائیں۔ اگر نوجوانوں کے سوالات کے جوابات حکمران طبقہ نہ دے سکا تو اُنہیں یہاں سے بھاگنا پڑے گا۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی قوم بہادر ہے لیکن حکمران مخلص نہیں ہیں۔ حکمران طبقے سے مراد ہے جو بار بار آئین توڑتے ہیں اور سب کو پتا ہے آئین بار بار کس نے توڑا ہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی قوم بہادر ہے لیکن حکمران مخلص نہیں ہیں۔ حکمران طبقے سے مراد ہے جو بار بار آئین توڑتے ہیں اور سب کو پتا ہے آئین بار بار کس نے توڑا ہے۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی قوم بہادر ہے لیکن حکمران مخلص نہیں ہیں۔ حکمران طبقے سے مراد ہے جو بار بار آئین توڑتے ہیں اور سب کو پتا ہے آئین بار بار کس نے توڑا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ آئین بار بار فوجی جنرل توڑتے ہیں۔ وہ اِس لیے توڑتے ہیں کہ سیاست دان آپس میں لڑیں۔ کسی جنرل کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ آئین توڑے۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دوسری طرف سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے۔ اُنہیں بھی آئین کی پاسداری کرنی چاہیے۔ فوج اور عدلیہ کے ساتھ سیاسی قیادت کو آئین کا احترام کرنا چاہیے۔

'اردو فکشن میں نیا کیا'

الحمراآرٹس کونسل لاہور میں جاری پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روز کے پہلے حصے ‘اردو فکشن میں نیا کیا’ میں گفتگو کرتے ہوئے ادیب اویس قرنی نے کہا کہ زبان کی حرمت کے لیے چلنے والی تحریکوں کے دور میں ہر خطے کے ادیبوں کا بڑا کردار ہے۔

ادبی میلے میں علاقائی زبانوں، علاقائی ادب پر بھی بات ہو گی جبکہ میلے کے تیسرے اور آخری روز ‘انور مقصود کا پاکستان’ پیش کیا جائے گا۔
ادبی میلے میں علاقائی زبانوں، علاقائی ادب پر بھی بات ہو گی جبکہ میلے کے تیسرے اور آخری روز ‘انور مقصود کا پاکستان’ پیش کیا جائے گا۔

نشست میں شامل اخلاق احمد نے کہا کہ ناول اور افسانہ لکھنے والوں نے بہت ہی مشکل راہ اپنائی ہے۔ یہ ایسا کٹھن کام ہے کہ بعض اوقات ایک اچھا نقاد ایک شہر میں صرف ایک شخص کو اچھا افسانہ نگار گر دانتا ہے۔

نشست میں شامل ادیب ناصر عباس نیر نے کہا کہ نئے فکشن پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کا آغاز ترقی پسند تحریک کے ساتھ ہوا۔

'اقبال نے مسائل کا حل 80 سال پہلے ہی دے دیا تھا'

پاکستان ادبی میلے کا آغاز رواں ماہ 10 فروری کو ہوا، جس کے افتتاحی حصے میں پہلے روز اکیسویں صدی کے تہذیبی چیلنج، پاکستان اور فکر اقبال کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال نے کہاکہ اقبال عشق کا پیغام دیتا ہے اور پاکستان کو اس کی ضرورت ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُردو زبان کو فروغ دینے کے لیے سب کو کردار ادا کرنا ہو گا۔

نشست کی صدارت فتح محمد ملک نے کرتے ہوئے کہا کہ آج کے نظام کو مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اقبال نے مسائل کا حل 80 سال پہلے ہی دے دیا تھا۔ اقبال نے جو تصویر بنائی اور اس میں جو رنگ بھرے اس میں آج کمی سی نظر آتی ہے۔

XS
SM
MD
LG