لکی مروت میں ایک روز قبل ہونے والے خودکش کا ر بم حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 90 ہو گئی ہے جب کہ زخمی ہونے والے درجنوں افراد میں سے بعض کو پشاور اور بنوں کے ہسپتالوں میں بھی منتقل کردیا گیا ہے ۔
پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں سے اکثر کی نمازہ جنازہ ہفتے کواداکی گئی ہے اور اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے ۔ مقامی حکام کے مطابق دھماکے سے منہدم ہونے والے مکانوں تلے دبے افراد کی تلاش کا کام بھی مکمل کر لیا گیا ہے ۔
پاکستان میں امریکی سفارت خانے نے اپنے ایک بیان میں لکی مروت کے شاہ حسن گاؤں میں ہونے والے خودکش کار بم حملے کی شدید مذمت کی ہے اور ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔
جمعے کو ہونے والے اس واقعے کے بارے میںصوبہ سرحد کے انسپکٹر جنرل پولیس ملک نوید نےوائس آف امریکہ کوایک انٹرویومیٕٕں بتایا کہ شدید دھماکے کی وجہ سے گراؤنڈ کے اِرد گِرد درجنوں مکانات منہدم ہوگئے جِس کے ملبے تلے دب کر کئی لوگ ہلاک یا زخمی ہوگئے۔
اُنھوں نے کہا کہ ایک گاڑی آئی اور سیدھی کھیل کے میدان میں گُھس گئی۔ کیونکہ یہ گاؤں کا علاقہ ہے اوروہاں ہر جگہ پولیس تعینات نہیں ہوتی۔ یہ دھماکا اُس وقت ہوا جب والی بال کھیل جاری تھا۔ واقعے میں کافی سارے کھلاڑی بھی شہید ہوئے اور کچھ زخمی ہوئے اور ساتھ کے گھر گِر پڑے جس میں بھی کچھ ہلاکتیں ہوئیں۔
حملے کے محرکات کے بارے میں پولیس کے اعلیٰ عہدے دار کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گردانہ حملہ اِسی علاقے میں دوہفتے قبل کی جانے والی کارروائی کا بدلہ معلوم ہوتا ہے، جس میں، اُن کے بقول، نامی گرامی دہشت گرد اور اُن کے کمانڈر پکڑے گئے تھے اور جو باقی بچے تھے وہ بھاگ گئے تھے۔
‘کسی وقت یہ نو-گو ایریا تھا۔ پولیس نے اُسے عام لوگوں کے لیے کھول دیا۔ شدت پسند یا جرائم پیشہ لوگوں کو اِس بات پر غصہ تھا کی مقامی لوگوں نے پولیس کا ساتھ کیوں دیا۔ یہ بدلہ لینے کا ایک طریقہ تھا۔ پھر یہ کہ اُن کو اپنا حربہ تبدیل کرنا تھا جس میں وہ شہری اہداف پر حملے کر رہے ہیں تاکہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ اُن کے خلاف آپریشن بند کیے جائیں۔’
ذرائع کے مطابق، دور دراز علاقہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے اور امدادی سرگرمیوں میں مشکلات پیش آئیں۔
خیال رہے کہ جِس گاؤں میں حملہ ہوا وہ قبائلی علاقے وزیرستان سے جُڑا ہوا ہے جہاں مبینہ طور پر طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں نے پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔