رسائی کے لنکس

نواز شریف کی واپسی؛ 'سابق وزیرِ اعظم کے لیے اب بہت کچھ بدل چکا ہے'


پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے چار برس بعد وطن واپسی کا سفر شروع کر دیا ہے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے بھی پارٹی قائد کے استقبال کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے۔

نواز شریف بدھ کو لندن سے سعودی عرب پہنچے جہاں وہ کچھ روز قیام کے بعد دبئی جائیں گے پھر 21 اکتوبر کو خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان پہنچیں گے۔

نواز شریف کی وطن واپس پر اُن کی گرفتاری اور اُنہیں درپیش قانونی مشکلات کا تاحال خدشہ موجود ہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے وکلا نے بھی اپنی تیاری پوری کر رکھی ہے۔

نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جو وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے تھے۔ بعدازاں بیماری کے باعث اُنہیں لاہور کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔

عدالتی حکم پر 2019 میں اُنہیں چار ہفتے کے لیے علاج کی غرض سے برطانیہ جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ مقررہ مدت میں واپس نہ آنے پر عدالت نے انہیں مفرور قرار دیتے ہوئے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔

قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ چوں کہ نواز شریف کے خلاف پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات زیرِ سماعت ہیں، لہذا اُنہیں واپس آ کر اِن مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔

'کسی بھی عدالت سے حفاظتی ضمانت لی جا سکتی ہے'

قانونی ماہر اور ایڈووکیٹ ہائی کورٹ میاں داؤد سمجھتے ہیں کہ نواز شریف واپس آئیں گے تو اُنہیں خود کو عدالت کے سامنے سرینڈر کرنا ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے میاں داؤد کا کہنا تھا کہ نواز شریف خود کو عدالت میں پیش کیے بغیر بھی حفاظتی ضمانت لے سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں اُن کی قانونی ٹیم کو عدالت کو بتانا ہو گا کہ وہ کیوں اور کس مقدمے میں اشتہاری ہوئے۔ اب وہ پاکستان آ کر اِن مقدمات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں لہذا اُنہیں حفاظتی ضمانت دی جائے۔

میاں داؤد کے بقول ایسی صورت میں نواز شریف العزیزیہ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ جب کہ لاہور ہائی کورٹ میں خود پیش ہوں گے۔

اُن کا کہنا تھا کوئی بھی ملزم یا مجرم پاکستان کی کسی بھی ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت لے سکتا ہے۔

قانونی ماہر اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ برہان معظم ملک سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملزم یا مجرم کو کسی بھی مقدمے میں ریلیف دینا عدالت کا اختیار ہوتا ہے لیکن ہر مقدمے کی نوعیت الگ ہوتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف سزا یافتہ مجرم یا قیدی کے طور پر پاکستان سے گئے۔ لہذا وہ جب پاکستان آئیں گے تو قوانین کے مطابق اُنہیں سیدھا جیل جانا پڑے گا جس کی وجہ یہ ہے کہ عدالت اُنہیں اشتہاری قرار دے چکی ہے۔

برہان معظم ملک کے مطابق اشتہاری قرار دینے جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی وہ پاکستان کی سر زمین پر اُتریں گے۔ اُنہیں فوری طور پر گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ اِس معاملے میں قانون بہت سادہ اور آسان ہے۔

'نواز شریف کے لیے اب حالات بہت بدل چکے ہیں'

سینئر صحافی تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف مختلف حالات میں وطن واپس آ رہے ہیں۔

اُن کے بقول ریاستی اداروں میں اس وقت نواز شریف کے لیے بظاہر نرم گوشہ ہے۔ البتہ سیاسی محاذ پر انہیں مسلم لیگ (ن) کی 16 ماہ کی کارکردگی کا بوجھ اُٹھانا پڑ رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی پاکستان آمد کے بعد سیاسی میدان میں کافی تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے جس سے لگ رہا ہے کہ ملک میں انتخابی ماحول بن رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک بڑے مفاہمتی سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر پاکستان آ رہے ہیں۔

سلمان غنی کے بقول مسلم لیگ (ن) میں جو لوگ بھی محاذ آرائی اور احتساب یا سیاسی مخالفین کے خلاف انتقام کی سیاست کرنا چاہتے تھے ان کو ناکامی ہوئی ہے۔

سلمان غنی کے بقول نواز شریف کو بھی مفاہمتی سیاست کی طرف لانے میں شہباز شریف کا کلیدی کردار ہے۔

نواز شریف کے چیلنجز

سلمان غنی کی رائے میں نواز شریف کے سامنے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو آنے والے انتخابات میں ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر پیش کریں۔

اُن کی رائے میں نواز شریف کو عوام سمیت اسٹیبلشمنٹ میں بھی یہ پیغام دینا ہو گا کہ ان کے پاس معاشی بحالی کا ایک بڑا روڈ میپ موجود ہے اور عالمی مالیاتی ادارے ان کے روڈ میپ میں ان کے ساتھ اور پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

سلمان غنی کے بقول اس وقت ووٹرز کی سطح پر لوگوں میں سخت مایوسی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے پاس ان کی معاشی بحالی کا کوئی بھی ایجنڈا نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو پاکستان آ کر سب سے زیادہ زور جہاں معاشی ترقی پر زور دینا ہے وہیں ان کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بروقت منصفانہ اور شفاف انتخابات پر زور دیں۔

برہان معظم ملک کی رائے میں نواز شریف کے خلاف مقدمات وہیں سے دوبارہ شروع ہوں گے جہاں سے سلسلہ رکا تھا۔

اُن کے بقول ہر مقدمے کے اپنے لوازمات ہوتے ہیں جس کو قانونی زبان میں میرٹ آف دی کیسز کہا جاتا ہے۔ کسی بھی کیس میں تمام ملزمان کا تعلق الگ الگ ہوتا ہے۔

سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کا اصل امتحان پنجاب کی سیاست ہے۔ یہاں سے ہی کامیابی ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی کنجی ہو گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG