رسائی کے لنکس

لیبیا میں نئے لیڈروں کا نیا درد سر


اصلاحات کی سست رفتار، قومی سیاست دانوں کی آپس کی چپقلش ختم کرنے میں ناکامی، اور لوگوں میں اس تاثر سے کہ انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے، مشرق لیبیا میں ناراضگی کو ہوا مل رہی ہے ۔

معمر قذافی کے زوال کے بعد، لیبیا میں جمہوریت لانا اور ملک کی تعمیرِ نو کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن طویل سیاسی نوک جھونک اور علاقائی رقابتوں کی وجہ سے یہ کام اور بھی مشکل ہو گیا ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ مشرقی لیبیا میں وفاقیت کی تحریک چل پڑی ہے ۔


مشرقی لیبیا میں وفاقیت کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے نئے لیڈروں کے لیے یہ نیا دردِ سر ہے اور مغربی لیبیا کے لوگ سخت غصے میں ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ وفاقیت پسند نیم خود مختاری پر مطمئن نہیں ہوں گے۔ وہ بعد میں مکمل آزادی کا مطالبہ کریں گے ۔

وفاقیت پسند کہتے ہیں کہ طرابلس میں مرکزی حکومت کے پاس صرف دفاع، سینٹرل بینکنگ، اور خارجہ پالیسی کے شعبے ہونے چاہئیں، اور تیل کی آمدنی میں ، جو ملک کے مشرقی حصے میں واقع تیل کے کنوؤں سے حاصل ہوتی ہے، سب کا حصہ ہونا چاہیئے ۔

اصلاحات کی سست رفتار، قومی سیاست دانوں کی آپس کی چپقلش ختم کرنے میں ناکامی، اور لوگوں میں اس تاثر سے کہ انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے، مشرق لیبیا میں ناراضگی کو ہوا مل رہی ہے ۔

وفاقیت کے حامی محمد بوئسیئر، لیبیا کے ایک سابق وزیرِ خارجہ کے بیٹے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ایسے لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو صحیح معنوں میں وفاقیت کی طرف جانا چاہتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ وفاقیت کا مطلب نہیں سمجھتے ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس طرح انہیں غیر اہم سمجھنے کے رجحان کا ختم ہو جائے گا۔‘‘

وفاقیت کے حامی کہتے ہیں کہ قذافی نے لیبیا کے مشرقی حصے کو ، جسے برقہ کہا جاتا ہے، نظر انداز کر دیا تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ قذافی کا دور ختم ہونے کے بعد بھی، لیبیا کے نئے لیڈروں نے ملک کے مشرق حصے کو نظر انداز کرنے کا رجحان جاری رکھا ہے۔ اور وہ لیبیا کے دو بقیہ صوبوں، جنوب مغرب میں فیضان اور مغرب میں طرابلس کو بھی نیم خود مختاری دینے کے حامی ہیں ۔

ایسا کرنے سے وہ وفاقی نظام بحال ہو جائے گا جو شاہ ادریس کی بادشاہت کے بیشتر حصے میں لیبیا میں رائج تھا ۔ لیبیا میں 1951 میں غیر ملکی تسلط ختم ہونے کے بعد سے 1969 تک جب قذافی نے ان کا تختہ الٹ دیا، شاہ ادریس کی حکومت قائم تھی ۔

بوئسیئر کہتے ہیں کہ برقہ اور فیضان کی آبادی کا بڑا حصہ وفاقیت کا حامی ہے ۔’’میرے پاس یہ ثابت کرنے کا کوئی سائنسی طریقہ تو نہیں ہے، لیکن اگر وہاں آج ریفرنڈم ہو، تو میں سمجھتا ہوں کہ برقہ کی اکثریت، اور شاید فیضان میں بھی، لوگوں کی کافی بڑی تعداد، وفاقی نظام کی حمایت کرے گی۔‘‘

وفاقیت پسندوں کے مطالبات کی طرابلس میں سخت مزاحمت کی جا رہی ہے۔ مزراطہ اور زنتان کے قصبوں میں بھی ، جنہوں نے انقلاب میں بڑا اہم رول ادا کیا، ملیشیا کے طاقتور لیڈر وفاقیت کے سخت مخالف ہیں۔
بلکہ بعض سیاست داں بھی جن کی ہمدردیاں وفاق پسندوں کے ساتھ ہیں، کہہ رہے ہیں کہ یہ وقت اس اقدام کے لیے مناسب نہیں ہے۔

لیبیا کی پارلیمینٹ میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے چیئر مین عبدالواہاب محمد قائد فکر مند ہیں۔ ’’اصولاً میں وفاقیت کو مسترد نہیں کرتا، لیکن آج کل کے حالات میں، میں سمجھتا ہوں کہ وفاقیت کے بارے میں بات کرنے کے لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے ۔‘‘


بعض وفاقیت پسندوں نے پہلے ہی تشدد کے ذریعے اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے۔ گذشتہ جولائی کے قومی انتخابات میں پولنگ کے روز، وفاقیت کے حامیوں نے ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا ۔ اس واقعے میں ایک انتخابی کارکن ہلاک ہو گیا۔ انھوں نے ووٹنگ کو روکنے کے لیے، ان گوداموں کو بھی آگ لگا دی جن میں بیلٹ پیپرز رکھے ہوئے تھے ۔


بن غازی میں اسلامی انقلابی ملیشیائیں وفاقیت کے تصور کو قبول کر رہی ہیں۔ ان میں انصار الشریعہ بھی شامل ہے ۔ یہ وہ ملیشیا ہے جس پر گذشتہ ستمبر میں بن غازی میں امریکی کونسلیٹ پر حملے کا الزام لگایا گیا ہے ۔ اس حملے میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز ہلاک ہو گئے تھے ۔ کیا وفاقیت پسند لیڈر اپنی بات منوانے کے لیے تشدد استعمال کر سکتے ہیں؟ بوئسیئر کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا لیکن انہیں پریشانی ضرور ہے ۔

’’ہر گز نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ان کی پہلی ترجیح لیبیا کی خود مختاری اور اتحاد ہے ۔ وفاقیت داخلی طور پر ملک پر حکومت کرنے کا طریقہ ہے۔لیکن کیا کچھ اور لو گ انہیں اپنے مقاصد کےلیے استعمال کر سکتے ہیں؟ ایسا ممکن ہے ۔‘‘
XS
SM
MD
LG