رسائی کے لنکس

’طالبان سے معاہدے کے بدلے، پاکستان کو آزاد تجارت کے سمجھوتے کی پیش کش کی جائے‘


ری پبلیکن سینیٹر لنڈسی گراہم، فائل فوٹو
ری پبلیکن سینیٹر لنڈسی گراہم، فائل فوٹو

امریکہ کے ایک ری پبلیکن سینیٹر نے کہا ہے کہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان کو آزاد تجارت کے معاہدے کی ترغیب دی جائے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ان پر دباؤ ڈالے۔

ساؤتھ کیرولائنا کے سینیٹر لنڈسی گراہم نے، جنہیں صدر ٹرمپ کا قریبی ساتھ تصور کیا جاتا ہے، امریکی چینل سی این این کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں امریکہ کی مدد کرتا ہے تو پھر امریکہ کو اپنی توجہ دہشت گردی کے انسداد اور داعش پر مرکوز کرنی چاہیے۔

سینیٹر گراہم، جنہوں نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا ہے، کہا کہ افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گراہم نے اتوار کے روز سی این این پر اپنے انٹرویو میں کہا کہ اب جب کہ میں افغانستان کا دورہ کر کے واپس آیا ہوں، آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ وہاں داعش اپنے قدم جما رہا ہے۔ لیکن اگر پاکستان ہماری مدد کرتا ہے، تو ہم افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کو اپنے سامنے مذاكرات کی میز پر بیٹھا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہاں ہماری توجہ کا مرکز دہشت گردی اور داعش کا قلع قمع ہو گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم پاکستان جا سکیں اور طالبان کو امن مذاكرات کی جانب دھکیلنے پر پاکستانیوں کو راغب کرنے کے لیے، ان کے سامنے میز پر آزاد تجارت کا معاہدہ رکھ دیں، تو ہم افغان جنگ ختم کر سکتے ہیں۔

ساؤتھ کیرولائنا کے سینیٹر نے، جو صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی تعریف کرتے رہے ہیں، کہا کہ وہ عمومی طور پر خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکیورٹی کے حوالے سے امریکی صدر کے فیصلوں سے بہت خوش ہیں۔

گراہم نے کہا کہ ٹرمپ نے امریکہ کو ایران کے معاہدے سے باہر نکالا، جو ایک ڈراونا خواب تھا۔ انہوں نے فوجی اخراجات میں ایک خاص سطح تک اضافہ کیا۔ انہوں نے افغانستان، عراق اور شام سے متعلق امریکی طریقہ کار تبدیل کیا جس کی وجہ سے داعش وہاں تباہ ہونے کے قریب ہے۔

ری پبلیکن سینیٹر کا کہنا تھا کہ انہیں شام سے متعلق صدر ٹرمپ کے فیصلے پر حیرت ہوئی۔ اس کی وجہ سے وہاں ہماری کامیابیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ میں صدر سے اس پر نظر ثانی کے لیے کہوں گا۔ میرا خیال ہے کہ وہ اپنے جنرلز کے بیٹھیں گے اور ایک اچھی طرح سوچا سمجھا ہوا بہتر فیصلہ کریں۔

سینیٹر لنڈسی گراہم کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے نقطہ نظر سے فوج کی تنظیم نو کی ہے اور اب ہم ایک مضبوط حیثیت کے ساتھ شمالی کوریا سے بات کر سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہم کسی بھی صدر کو یہ کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔ اوباما کسی بھی شخص کے مقابلے میں زیادہ بہتر جانتے تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی کسی فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کریں گے۔ میرا یقین ہے کہ وہ کریں گے۔

XS
SM
MD
LG