رسائی کے لنکس

لز ٹرس برطانیہ کی نئی وزیرِ اعظم نامزد، منصب پر فائز ہونے والی تیسری خاتون ہوں گی


پیر کو کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے لیے جماعت کے ارکان کی رائے شماری کے نتائج کا اعلان کیا گیا, جس کے مطابق ایک لاکھ 80 ہزار پارٹی ارکان نے ووٹ دیا۔
پیر کو کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے لیے جماعت کے ارکان کی رائے شماری کے نتائج کا اعلان کیا گیا, جس کے مطابق ایک لاکھ 80 ہزار پارٹی ارکان نے ووٹ دیا۔

برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی نے جماعت کی قیادت اور وزارتِ عظمی کے لیے لز ٹرس کو منتخب کرلیا ہے۔ وہ برطانیہ کی تاریخ کی تیسری خاتون وزیرِ اعظم ہوں گی۔

پیر کو کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے لیے جماعت کے ارکان کی رائے شماری کے نتائج کا اعلان کیا گیا, جس کے مطابق ایک لاکھ 80 ہزار پارٹی ارکان نے ووٹ دیا۔

کنزروٹیو پارٹی کی قیادت اور برطانیہ کی وزاتِ عظمی کے لیے بورس جانسن کی کابینہ میں وزیرِ خارجہ رہنے والی لز ٹرس اور سابق وزیرِ خزانہ رشی سونک کے درمیان مقابلہ تھا، جس میں لز ٹرس کو ایک لاکھ 80 ہزار پارٹی ارکان میں سے 81 ہزار سے زائد ووٹ ملے جب کہ مدمقابل رشی سونک نے 60 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

پارٹی قیادت کے لیے ہونے والے انتخاب کے اعلان کے بعد برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن منگل کو اپنا استعفی ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کو پیش کر دیں گے۔

ملکہ برطانیہ منگل ہی کے روز باضابطہ طور پر لز ٹرس کو برطانیہ کے وزیرِ اعظم کے طور پر نامزد کریں گی۔ یہ تقریب لندن کے بکنگھم پیلس کے بجائے اسکاٹ لینڈ میں ملکہ کی بالمورال اسٹیٹ میں منعقد ہوگی، جہاں وہ چھٹیاں گزار رہی ہیں۔

برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن کو کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران تقریبات منعقد کرنے کی خبروں کی وجہ سے سیاسی دباؤ کا سامنا تھا۔ برطانوی اور عالمی میڈیا میں یہ ’پارٹی گیٹ‘ اسکینڈل کے عنوان سے رپورٹ ہوا تھا۔

اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد پیدا ہونے والے بحران کی باعث بورس جانسن نے کو اپنی ہی کابینہ کے بیشتر وزرا کے استعفے اور پارٹی میں اختلافات کا سامنا تھا جس کے بعد انہوں نے رواں برس جولائی میں کنزرویٹو پارٹی کی قیادت سےمستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا تھا۔

ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے لیڈر کے انتخاب کا عمل شروع ہوگیا تھا۔

کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور وزراتِ عظمی کے لیے رشی سونک اور لز ٹرس میں مقابلہ تھا۔
کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور وزراتِ عظمی کے لیے رشی سونک اور لز ٹرس میں مقابلہ تھا۔

برطانیہ کی پارلیمان میں چوں کہ کنزرویٹو پارٹی کو برتری حاصل ہے اس لیے اسی پارٹی کا سربراہ اگلا وزیرِ اعظم ہوگا۔

پارٹی کی قیاد ت کے لیے ہونے والی رائے شماری میں لز ٹرس اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

وعدے اور چیلنجز

لز ٹرس بوریس جانسن کی کابینہ میں بطور وزیرِ خارجہ شامل رہیں۔ آکسفرڈ میں 1975 میں پیدا ہونے والی لز ٹرس 2010 سے پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔2012 میں پہلی بار ان کو جونیئر وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل کیا گیا تھا۔

وہ اپنے سیاسی کریئر کے دوران سابق وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون، تھریسا مےاور بورس جانسن کی کابینہ کا حصہ رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق 47 سالہ لز ٹرس نے پارٹی قیادت کے لیے جاری مہم میں برطانیہ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور ایندھن کی فراہمی کے مسائل کو ایک ہفتے میں حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

انہوں نے اپنی مہم کے دوران ٹیکس اور لیوی میں کٹوتی کا بھی اعلان کیا تھا، جس کے بارے میں بعض ماہرین کہنا ہے کہ ان اقدامات کی صورت میں ایندھن مزید مہنگا ہوگا۔

واضح رہے کہ بورس جانسن کے بعد لز ٹرس 2015 کے بعد کنزرویٹیو پارٹی سے تعلق رکھنے والی چوتھی وزیرِ اعظم ہوں گی۔ اس دوران برطانیہ کو ایک کے بعد ایک بحران کا سامنا رہا ہے۔

اسی دوران برطانیہ نے یورپی یونین سے نکلنے کے لیے بریگزٹ کا مرحلہ طے کیا البتہ اس وقت ملک کو بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔ رواں برس جولائی میں ملک میں افراطِ زر کی شرح 10 فی صد سے تجاوز کرچکی ہے۔

’رائٹرز‘ کے مطابق سابق کنزرویٹو قانون ساز ڈیوڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ 1979 میں مارگریٹ تھیچر کے بعد لز ٹرس کو مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔

(اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں)

XS
SM
MD
LG