رسائی کے لنکس

برطانیہ میں عید الاضحیٰ اور قربانی


اگر آپ صاحب حیثیت اور بالغ ہیں اور آپ کے بینک کے سیونگ کھاتے میں تین سو سے چار سو پاؤنڈ رقم موجود ہے تو اس کو قربانی دینی چاہیئے۔

ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو دنیا بھر کے مسلمان عید الاضحی پورے مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں، یہ عید ہر سال مسلمانوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانی کی یاد دلاتی ہے جو انھوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے پیش کی تھی۔

سعودی عرب، مشرق وسطیٰ اور برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں جمعرات 24 ستمبر کو عید الاضحیٰ منائی گئی۔

عید الاضحیٰ کو عید قرباں، بقر عید یا بڑی عید بھی کہا جاتا ہے ،جس میں عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد اللہ کی راہ میں جانور کی قربانی کر کے سنت ابراہیمی کی پیروی کی جاتی ہے لیکن مغربی ممالک میں آباد مسلمان تارکین وطن عید الاضحیٰ کے موقع پر صرف نماز عید ہی ادا کر سکتے ہیں اور جانور کی قربانی کا فریضہ ادا کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

پردیس میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے قربانی کا طریقہ کار، اس طریقے سے مختلف ہوتا ہے، جو وہ اپنے ملکوں میں اختیار کرتے ہیں۔

برطانیہ میں عید الاضحیٰ کے موقع پر مسلم کمیونٹی کی طرف سے عموماً اپنے وطن میں رشتہ دار یا دوست احباب کو رقم بھیج کر سنت ابراہیم کا فریضہ ادا کیا جاتا ہے۔

اسی طرح بیرون ملک میں ایک طریقہ کافی مقبول ہے، جس کے تحت کسی فلاحی تنظیم کے بینک اکاونٹ میں قربانی کے جانور کی مقرر کردہ قیمت جمع کی جاتی ہے اور اس کار خیر میں شریک ہو کر قربانی کا فریضہ ادا کیا جاتا ہے۔

تاہم برطانیہ میں ان دنوں زیادہ مقبول طریقہ یہ ہے کہ اکثر حلال میٹ کی دوکانیں آپ کی طرف سے قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی سہولت فراہم کر دیتی ہیں۔

لیکن آپ کا قربانی کا جانور کیسا ہے، اس میں کوئی عیب تو نہیں یا پھر اس کے دو دانت ہیں یا نہیں اس حجت کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے کیونکہ یہاں قربانی کا بکرا یا گائے کے صرف گوشت کو دیکھ کر ہی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ جانور کیسا تھا۔

اس سال لندن کی میٹ شاپس پر قربانی ایک بکرے کی قیمت 120 سے لے کر140 پاؤنڈ، جبکہ گائے کا ایک حصہ 160 سے 200 پاؤنڈ یا پھر دوکان دار کی من مانی قیمتوں میں دستیاب ہے۔

تاہم عید الاضحیٰ کے موقع پر ان طریقوں سے قربانی کا فریضہ ادا کرنے والے اکثر لوگوں کے دلوں میں یہ وہم بھی پایا جاتا ہے کہ کیا انھوں نے قربانی شرعی طریقے سے ادا کی ہے اور کیا ان کی طرف سے قربانی ادا ہو گئی ہو گی؟

مثلاً کچھ لوگوں کے دلوں میں یہ شک پایا جاتا ہے کہ کیا سلاٹر ہاؤس میں جانور کے گلے پر چھری عید کی نماز کے بعد پھیری گئی ہو گی، جیسا کہ اس حوالے سے لوگوں میں قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں کہ ذبح خانے میں اس دن زیادہ رش کی وجہ سے جانوروں کو ذبح کرنے کا کام آدھی رات یا پھر صبح فجر کے وقت سے شروع ہو جاتا ہے اور دوپہر تک گوشت کی تقسیم کا کام شروع کیا جاتا ہے۔

اس مسئلے کے حوالے سے ’وی او اے‘ کے نمائندے نے لندن میں مسجد غوثیہ کے خطیب علامہ جنید سے بات کی ہے جنھوں نے اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قربانی صبح فجر کے بعد کی جاتی ہے، جیسا کہ اسلامی ملکوں میں عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد قربانی کرنا جائز ہے لیکن ان علاقوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں، وہاں قربانی فجر کے وقت کی جا سکتی ہے یہاں اس کے لیے نماز کی ادائیگی کی شرط موجود نہیں ہے، تاہم رات بارہ یا آدھی رات کو اگر جانور ذبح کیا جاتا ہے تو یہ قربانی نہیں ہو گی۔

علامہ صاحب نے کہا کہ احسن طریقہ تو یہ ہے کہ غریب ملکوں میں یا کسی غریب قرابت دار کو قربانی کے لیے رقم بھیج دی جائے، جنھیں سارا سال گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا ہے اور اس طرح انھیں بھی عید کی خوشیوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ اپنے بچوں اور نسلوں کو سنت ابراہیم کا پابند بنانے کے لیے ضروری ہے کہ قربانی یہاں ان کے سامنے بھی کی جائے۔ اگر آپ صاحب حیثیت اور بالغ ہیں اور آپ کے بنک کے سیونگ کھاتے میں تین سو سے چار سو پاونڈ رقم میں موجود ہے تو اس کو قربانی دینی چاہیئے۔

انھوں نے قربانی کے گوشت کی تقسیم کےحوالے سے بتایا کہ قربانی کے گوشت کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اسے پورا تقسیم کیا جائے، جیسا کہ صدقے کے گوشت کی ایک بوٹی بھی رکھنا جائز نہیں، لیکن احسن طریقہ یہ ہے کہ اس کے تین حصے کیے جائیں اور اسے رشتہ داروں، پڑوسی اور غریب میں تقسیم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ قربانی کا گوشت امیر غریب کسی کو بھی دیا جا سکتا ہے اور اگر آپ کے پڑوسی غیر مسلم ہیں اور اگر وہ مائنڈ نا کریں تو انھیں بھی قربانی کا گوشت بھیجا جانا چاہیئے جیسا کہ اسلام کے اولین دور میں زکوۃ مسلم اور غیر مسلم دونوں کو دی جاتی تھی اس سے ان کے دل میں اسلام کے لیے وسعت اور گنجائش پیدا ہو گی۔

علامہ جنید نے بتایا کہ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوں گے اتنی ہی نیکیاں قربانی کرنے والے کے نامہ اعمال میں ڈالی جائیں گی اور جانور وزن میں جتنا زیادہ وزنی ہو گا اس قربانی کرنے والے کی نیکیوں کا میزان بھی اتنا ہی بھاری ہو جائے گا اور پل صراط پار کرانے میں یہ آپ کی سواری ہو گا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ قربانی کرنے کا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے، تو جانور جتنا بڑا ہے اتنا اچھا ہے، لیکن اس میں دکھاوا یا ریا کاری نہیں ہونی چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG