رسائی کے لنکس

دہشت گردی کی میڈیا کوریج سے تشدد کو فروغ ملتا ہے: مطالعہ


ذرائع ابلاغ کو دہشت گرد حملوں کی سنسنی خیز کوریج پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور تنظیموں کو آزاد میڈیا پلیٹ فارم فراہم کرنے سے روکنے کی ضرورت ہے۔

ایک حالیہ مطالعے کے مطابق بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں دہشت گردی کی کوریج کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دہشت گرد کارروائیوں کی سنسنی خیز میڈیا کوریج سے تشدد کے رجحانات کو فروغ ملتا ہے۔

یہ مطالعہ جرمنی میں 'انسٹی ٹیوٖٹ فار دی اسٹڈی آف لیبر' سے منسلک محققین اور کولمبیا میں 'اسکول آف اکنامکس اینڈ فنانس یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل جیٹر کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا، جس میں دہشت گردی کے فروغ میں ذرائع ابلاغ کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔

روزنامہ گارڈین کی رپورٹ کے مطابق مطالعے کے نتائج 60,000 سے زائد بین الاقوامی دہشت گرد حملوں کے مطالعے سے اخذ کیے گئے ہیں، جو 1970ء سے 2012ء کے درمیان ہوئے تھے۔

محقق جیٹر نے دیکھا کہ گذشتہ 15 سالوں میں دنیا بھر میں دہشت گردی کے حملوں میں خوفناک اضافہ ہوا، عالمی دہشت گردی کے اعداد و شمار میں 1998ء میں 1,395 حملے درج ہوئے اور بعد کے سالوں میں حملوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا جو 2012ء میں 8,441 کے بلند ریکارڈ تک پہنچ گئے۔

علاوہ ازیں گذشہ 15 سالوں میں دہشت گرد حملوں میں ہلاکتوں کی کل تعداد 3,387 سے 15,396 تک بڑھ گئی اور اسی زمانے میں دہشت گردوں کی طرف سے ان کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے میڈیا کو استعمال کرنے کی کوششوں کو تیز کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد تنظیم داعش کی طرف سے فلمائے جانے والی سر قلم کرنے کی گرافک ویڈیوز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے، جسے انٹرنیٹ پر جاری کیا جا رہا ہے، عالمی سطح پر تنظیم کو خوف کی علامت بنا دیا ہے۔

محققین نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ میں اس طرح کے واقعات کی کوریج کے بارے میں ایک مختلف بحث سامنے آئی ہے کہ ایسی تنظیموں کو میڈیا پر کتنی ترویج کی آکسیجن ملنی چاہیئے۔

مطالعے نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ ایسی تنظیموں کو میڈیا میں وسیع کوریج حاصل ہے جبکہ اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا کہ دہشت گرد اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے میڈیا کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، کیونکہ دہشت گردوں کو ان کا پیغام پھیلانے، عالمی سطح پر خوف و ہراس پیدا کرنے اور وفاداروں کو بھرتی کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کی کوریج کی ضرورت ہوتی ہے۔

ذرائع ابلاغ کی کوریج اور حملوں کے درمیان تعلق کا اس وقت انکشاف ہوا، جب محققین نے اخبارات کی شہ سرخی بننے والے ان حملوں کا موازنہ، ان بڑے واقعات مثلاً قدرتی آفات وغیرہ کی کوریج کے ساتھ کیا، جو اسی دوران پیش آئے تھے۔

محققین نے کہا کہ ہمارے تجزیے میں ابتدائی دہشت گردانہ واقعات کے لیے وقف مضامین کی تعداد اور اگلے چند ہفتوں کے دوران فالو اپ (تخورتی) حملوں کی تعداد کے درمیان ایک واضح تعلق ابھر کر سامنے آیا ہے ۔

تحقیق سے یہ بھی نشاندہی ہوئی کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کی مخلتف اقسام کے واقعات کو ذرائع ابلاغ میں مخلتف طرح سے پیش کیا گیا تھا۔

پروفیسر جیٹر نے کہا کہ خودکش حملے میڈیا پر نمایاں کوریج حاصل کرتے ہیں، جس سے دہشت گردوں کے درمیان ان حملوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وضاحت ہوتی ہے۔

انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ تشدد کی کارروائیوں کے لیے وقف میڈیا کی توجہ نے دو طرح کے امکانات کو جنم دیا ہے، یعنی یا تو متاثرہ ملک میں سات روز کے اندر ایک اور حملے کے خدشے میں اضافہ ہوا یا پھر اس کے نتیجے میں اگلے حملے تک کم وقفے کا امکان نظر آیا۔

محققین نے کہا کہ مطالعے کے نتائج نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے کہ کیا دہشت گردی سے متعلق خبروں کی اشاعت محدود کرنے کے نتیجے میں تشدد کی کارروائیوں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

پروفیسر مائیکل جیٹر نے کہا کہ پر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں ہر روز 42 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔

انھوں نے تجویز دی کہ ذرائع ابلاغ کو دہشت گرد حملوں کی سنسنی خیز کوریج پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور تنظیموں کو آزاد میڈیا پلیٹ فارم فراہم کرنے سے روکنے کی ضرورت ہے۔

محقق جیٹر کا یہ مطالعہ یورپی اکنامک ایسوسی ایشن کانگریس کے سالانہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا جو اس ماہ کے آخر میں جرمنی میں منعقد ہو گا۔

XS
SM
MD
LG