رسائی کے لنکس

'اصلی نقلی کو چھوڑیے، کوئی ایک خواجہ سرا سامنے لائیں جس کی آپ عزت کرتے ہوں'


ڈاکٹر مہرب معز اعوان
ڈاکٹر مہرب معز اعوان

خواجہ سراؤں کے حقوق کی کارکن ڈاکٹر مہرب معز اعوان نے اسلام آباد کی ایک تقریب میں شرکت سے روکے جانے اور خواجہ سرا شناخت پر اعتراضات کو ’ٹرانس فوبک‘ یعنی خواجہ سراؤں سے کراہت آمیز رویے پر مبنی قرار دیا ہے۔

انہوں نے ایک مقامی سکول کی جانب سے انہیں تقریر سے روکنے کے اقدام کو سنسرشپ سے مترادف قرار دیا۔

واضح رہے کہ منگل کے روز ٹرانس رائیٹس ایکٹوسٹ ڈاکٹر مہرب معز اعوان نے ٹوئٹر پر بتایا تھا کہ رواں ماہ کی بیس تاریخ کو انہوں نے ایک مقامی سکول کے زیر اہتمام تقریب ’ٹیڈ ایکس آئی ایس ایل‘ میں شرکت کرنا تھی۔ جہاں اب انہیں تقریر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے انہیں مطلع کیا کہ بعض والدین کی طرف سے ان کی شناخت اور خیالات پر اعتراض اٹھایا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مہرب معز نے کہا

’’انٹرنیشنل سکول لاہور (آئی ایس ایل) نے میرے اور میرے حلیفوں کے مقابلے میں ان کی تجوریاں بھرنے والوں کے حق میں کسی سرمایہ دار کی ہی طرح فیصلہ دیا ہے۔ یہ معاشی بنیادوں پر لیا ہوا فیصلہ تھا کیونکہ ٹرانسفوبیا، سنسرشپ اور لوگوں کو تقسیم کرنا آسان فیصلہ ہے۔‘‘

انٹرنیشنل سکول لاہور نے اپنے انسٹاگرام پیج پر اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر مہرب کو ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے خلاف تفریق کے موضوع پر تقریر کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن انتظامیہ کو مہرب کے ماضی میں دیے گئے بعض بیانات اور ان کے طرز اظہار سے مطلع کیا گیا۔ انتظامیہ جہاں سمجھتی ہے کہ یہ ان کے انفرادی خیالات ہیں، مگر ان کے عوامی شخصیت کے رتبے سے اسے علیحدہ نہیں کر سکتی۔‘‘

سوشل میڈیا پر اس موضوع پر مسلسل تبصرے کیے جا رہے ہیں اور مذمت و تائید پر ٹوئٹس اور پوسٹس لگائی جا رہی ہیں۔

اسی تقریب میں ایک اور مقرر، دانشور اور سیاسی کارکن عمار علی جان نے ٹوئٹ کیا کہ وہ ڈاکٹر مہرب کے ساتھ یکجہتی میں اس تقریب کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ انتہائی نامناسب ہے۔ یہ نوجوانوں کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ وہ ڈاکٹر مہرب کے خیالات سے بہت کچھ سیکھ سکتے تھے۔

دوسری طرف معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے آئی ایس ایل کی انتظامیہ کی حمایت میں انسٹاگرام پر سٹوریز شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بچے اس سکول میں پڑھتے ہیں اور والدین یہ فیصلہ کریں گے کہ ان کے بچوں کے رول ماڈل کون ہوں گے۔ انہوں نے مہررب پر اعتراض اٹھاتے ہوئے دعوی کیا کہ ان کا تعلق خواجہ سرا کمیونٹی سے نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے میں ’ہرمیفروڈائٹ‘ کو سمجھا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ’ ہرمیفروڈائٹ ‘ اس فرد کو کہا جاتا ہے جس میں مردانہ اور زنانہ جنسی اعضا پائے جاتے ہیں یا صنفی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ حالت انسانوں اور دیگر جانوروں میں کسی پیدائشی نقص کی بدولت بھی پائی جا سکتی ہے جب کہ بعض فطری طور پر ہرمیفروڈائٹ ہوتے ہیں۔

مہرب نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اصلی اور نقلی خواجہ سرا کی بحث کے ذریعے ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے حقوق کو ہمیشہ دبایا گیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو کہتے ہیں کہ وہ اصلی خواجہ سرا کی عزت کرتے ہیں، ان کو میرا چیلنج ہے کہ وہ ایک ایسا خواجہ سرا سامنے لائیں، جس کے جسمانی معائنے کے بعد وہ یہ دعوی کر سکیں کہ وہ اس کی عزت کرتے ہیں۔

’’ میرے جسمانی اعضا سے متعلق عوام کا اصرار محض ان کے شوق کی تسکین کے لیے ہے۔‘‘

مہرب نے، جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر بھی ہیں، کہا کہ ہماری حقائق سے ناواقف اشرافیہ کے ذہن میں کسی شخص کے ایک ساتھ مردانہ اور زنانہ اعضا کا جو تصور ہے، اس کا ذکرمیڈیکل کی کتابوں اور طبی پریکٹس میں کہیں نہیں پایا جاتا۔

ان تصورات کی بنیاد پر ٹرانسجینڈر شناخت سے متعلق ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دو کمیونٹیز میں یہ تخصیص کا تصور تاریخی طور پر جانا جاتا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کارکن اور دانشور عائشہ سروری نے کہا کہ مغل زمانہ، اور اس سے بھی قبل وہ افراد جو ایک جنس سے دوسری میں تبدیل ہوتے ہیں کیونکہ ان کا جسم ان کے ذہن یا ہارمونز سے مطابقت نہیں رکھتا، یا جس سے ان کی صنفی شناخت مطابقت نہیں رکھتی ہے، موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے افراد ان سے بالکل مختلف ہیں جو لوگ ایک بائیولوجیکل حالت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور’ ہرمیفروڈائٹس‘ ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں الجھاؤ پیدا کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کا ٹرانسجینڈر پرسنز پراٹیکشن آف رائیٹس کا 2018 کا قانون ’’ٹرانسجینڈر پرسنز‘‘ کی تعریف میں ایسے ٹرانسجینڈر مرد اور ٹرانسجینڈر عورتوں اور ایسے دیگر افراد کو بھی شامل کرتا ہے جن کی صنفی شناخت ان کی پیدائش کے وقت دی گئی صنف سے مختلف ہو۔

دوسری طرف عائشہ سروری نے مہرب معز اعوان کو تقریر کرنے سے روکنے پر تنقید کرتے ہوئے اسے سنسرشپ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ مہرب انفرادی شناخت کے حق کی بات کرتی ہیں اور یہ ہر کمیونٹی کا حق ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف بفلو سے جینڈر کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی طالبہ ماریہ عامر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ جہاں گزشتہ کچھ عرصے میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے افراد کو ممتاز جگہوں پر کام کرتے دیکھا ہے، وہ ایکٹنگ کر رہے ہیں، وہ کمپئیرنگ کر رہے ہیں، ڈاکٹر مہرب جیسے افراد ہیں، ایسے میں اس سے بعض حلقوں میں بے چینی ہے۔ ان حلقوں کے لیے ٹرانس جینڈر کمیونٹی جب تک منظر سے پرے ہے، تب تک ٹھیک ہے، وہ ان پر ترس کی نگاہ ڈال سکتے ہیں، اور سب ٹھیک رہے گا۔ لیکن جب اس کمیونٹی کے ساتھ برابری کی سطح پر رابطہ کرنا پڑے گا تو اس سے انہیں تکلیف ہوتی ہے۔

’’یہ خیال کرنا کہ صرف دو ہی اصناف سے آپ دنیا کا تصور کر سکتے ہو، عورت اور مرد کون ہو سکتا ہے اور کون نہیں، اس کے علاوہ کچھ اور خیالات ہوں تو ان سے آپ پریشان ہوجاتے ہوں تو اس سے صنفی شناخت کے موضوع کو سمجھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘

عائشہ کا کہنا ہے کہ جہاں پاکستان کے قوانین ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے حوالے سے کافی حد تک ترقی پسندانہ ہیں وہیں بعض گھسی پٹی اصطلاحات کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں جب تک تشدد، منشیات، جسم فروشی اور دیگر صورتوں میں استحصال پذیر ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو عزت دار نوکریوں کا حصول معمول نہیں بنایا جائے گا حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ بقول ان کے ’’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مکالمے کو جاری رکھیں۔‘‘

ماریہ بی سے موقف لینے کے لیے رابطہ لیا گیا لیکن اب تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔

XS
SM
MD
LG