سپریم کورٹ میں زیر سماعت میمو گیٹ اسکینڈل مقدمے کے 10 میں سے چھ فریقین نے اپنے تحریری بیانات عدالت میں جمع کرا دیے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی فوجی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا، اور داخلہ اور خارجہ اُمور کی وزارتوں نے اپنے جوابات جمعرات کو اٹارنی جنرل کے توسط سے بھیجے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق جنرل کیانی نے تحریری موقف میں ممیو سے متعلق معلومات کو ’’انتہائی حساس‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکام کو بھیجا جانے والا یہ مکتوب ایک حقیقت ہے اور اس کا جائزہ لیا جانا چاہیئے۔
مزید برآں فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ انھیں منصور اعجاز کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی کی ملاقات کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے بیان میں بتایا گیا کہ میمو گیٹ اسکینڈل کے مرکزی کردار پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سیفر حسین حقانی نے اپنے جوابات بدھ کو ہی جمع کرا دیے تھے۔
مقدمے کے جن فریقین نے تاضال اپنے جوابات داخل نہیں کرایے ہیں اُن میں صدر آصف علی زرداری، دفاع اور قانون و انصاف کی وزارتیں اور کابینہ ڈویژن شامل ہیں۔
منصور اعجاز نے اخبار میں اپنے ایک مضمون کے ذریعے سب سے پہلے یہ انکشاف کیا تھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے کہنے پر اُنھوں نے امریکی حکام کو صدر زرداری سے منسوب ایک خط یا میمو پہنچایا تھا جس میں پاکستان کی فوجی قیادت کی برطرفی کے لیے امریکہ سےمدد مانگی گئی تھی۔
حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے اس خفیہ مراسلے میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ میں آئینی درخواست دائر کر رکھی ہے جس میں صدرِ پاکستان، آرمی چیف، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حقین حقانی کے علاوہ منصور اعجاز کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
یکم دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے آئینی درخواستوں کی ابتدائی سماعت کے بعد تمام فریقین کو 15 دنوں میمو گیٹ اسکینڈل سے متعلق اپنے تحریری جواب داخل کرانے کا حکم دیا تھا۔