سپریم کورٹ نے ممبئی کے ایک اسپتال میں 37سالوں سے نیم بےھوشی کی حالت میں پڑی ہوئی ایک سابق نرس ارونہ شان باغ کی اُس درخواست کومسترد کردیا ہےجِس میںمریضہ کی حالت پر رحم کھا کر، جسے مرسی کلنگ کہا جاتا ہے، موت کی نیند سلادینے کی اجازت مانگی گئی تھی۔
جسٹس مارکنڈے کاجو اور جسٹس گیان سودھا مِشرا پر مشتمل بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس کے تحت یہ اجازت دی جاسکے، ’پہلے پارلیمنٹ کو ایسا قانون وضع کرنا ہوگا۔‘
ارونہ شان باغ ممبئی کے ایک اسپتال میں نرس تھیں۔ 27نومبر 1973ء کو اسپتال کے ہی ایک وارڈ بوائے نے اُن پر حملہ کرکے اُن کی عصمت دری کی تھی۔
اِس واقعے کے بعد وہ نیم بے ہوشی کی کیفیت میں مبتلا ہوگئیں اور اُسی وقت سے کنگ ایڈورڈ اسپتال میں داخل ہیں۔ وہ دیکھ تو سکتی ہیں مگر اُن کا دماغ کام نہیں کرتا۔ اُنھیں نلکی کے ذریعے غذا دی جاتی ہے اور اُن کا نظامِ ہضم درست ہے۔ اُن کی ایک صحافی دوست پِنکی ویرانی نے اُن کے لیے ازراہِ ہمدردی موت کی اجازت مانگی تھی۔
عدالت نے کہا کہ شان باغ کی حالت دیکھ کر نہیں لگتا کہ اُن کے لیے کسی کو موت دینے کی اجازت مانگنے کا حق حاصل ہے۔
اسپتال کے ڈاکٹروں اور نرسوں نے اِس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کسی ایسے شخص کو ارزاہِ ہمدردی موت کی نیند سلا دینے کی اجازت ملنی چاہیئے جِس کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوگئی ہو۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہریش سالوے نے اِس فیصلے پر کہا کہ عدالت نے ہمت کرکے اپنا فیصلہ سنایا ہے، جو بہت اہمیت اور دوررس نتائج کا حامل ہے۔
عدالت نےاپنے فیصلے میں پاسو ایتھ نیسیا (Passive Euthanasia)استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ بسترِ مرگ پر پڑے ہوئے مریض کا علاج روکتے ہوئے لائف سپورٹ سسٹم ہٹا لیا جائے، تاکہ مریض کی موت واقع ہوجائے۔
اِس پر طبی ، سیاسی اور قانونی حلقوں میں ایک بحث چھِڑ گئی ہے اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور اگر مرسی کلنگ (mercy killing) کی اجازت دے دی گئی تو اُس سے ملک میں اُتھل پُتھل مچ جائے گی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: