رسائی کے لنکس

وسط مدتی امریکی انتخابات میں تارکین وطن کی دلچسپی


 کیلی فورینا کے علاقے لندن بیچ کے ایک لانڈرومیٹ میں قائم پولنگ اسٹیشن پر امیلیا سنکلیئر اپنا ووٹ ڈال رہی ہیں۔ 4 نومبر 2014
کیلی فورینا کے علاقے لندن بیچ کے ایک لانڈرومیٹ میں قائم پولنگ اسٹیشن پر امیلیا سنکلیئر اپنا ووٹ ڈال رہی ہیں۔ 4 نومبر 2014

پاکستان میں ضمنی انتخابات مکمل ہو گئے ہیں اور اس کے نتائج کے مطابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اپنی دو جیتی ہوئی سیٹیں ہار گئی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون نے مزید دو سیٹیں حاصل کر لی ہے۔ یوں قومی اسمبلی میں دونوں جماعتوں کی عددی حیثیت میں کچھ رد و بدل دکھائی دے رہا ہے۔

امریکہ میں آئندہ ماہ وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں اور سیاسی ماہرین کے مطابق ان انتخابات کے نتائج سے بھی سینیٹ میں ڈیموکریٹک جماعت اور رپبلکن پارٹی کی عددی حیثیت میں ردوبدل کا قوی امکان ہے۔

امریکہ میں صدر ٹرمپ کی امیگریشن سے متعلق پالیسیوں کو یہاں بسنے والے تارکین وطن کی اکثریت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

تارکین وطن کی مختلف برادریوں کا میڈیا خاصی حد تک متعلقہ آبادیوں میں مقبول ہے۔ یہ میڈیا عام طور پر وسط مدتی انتخابات میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ تاہم اس مرتبہ صورت حال کچھ مختلف دکھائی دیتی ہے کیونکہ آئندہ ماہ ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے نتائج یا تو صدر ٹرمپ کے ایجنڈے کو بے اثر کر دیں گے یا پھر اُن کی حکمت عملیوں کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

کیمرون نژاد پامیلا انچنگ، لاس اینجلس میں ایک نئے ریڈیو ٹاک شو ’’اِم پیکٹ‘‘ کی میزبان ہیں۔ اُن کا کہنا ہےکہ اس مرتبہ امریکہ میں تارکین وطن کو امیگریشن سے متعلق جن حالات کا سامنا ہے، اُن کے تناظر میں تارکین وطن کی ان وسط مدتی انتخابات میں دلچسپی بڑھ گئی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے نتائج امیگریشن سے متعلق موجودہ پالیسیوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

لاس اینجلس میں ہسپانوی زبان کے اخبار La Opinion کے چیف ایڈیٹر گیبریل لرنر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے خیال میں اس سال ہونے والے وسط مدتی انتخابات بالکل مختلف ہیں اور اس کی وجہ صرف ایک لفظ ہے اور وہ ہے’ ٹرمپ‘۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لاطینو برادری کے لئے ایک سیاسی زلزلے کی طرح ہے۔

امریکہ میں ہسپانوی زبان کی میڈیا ویب سائٹس تارکین وطن کو ڈی پورٹ کرنے اور امیگریشن ایجنٹس کی طرف سے اُن کی گرفتاریوں کی خبروں سے بھری ہوئی ہیں۔ گیبریل لرنر کہتے ہیں،’’ ٹرمپ نے اپنی مہم کے آغاز کے وقت سے ہی ایک دشمن کا سا برتاؤ کیا ہے جب اُنہوں نے میکسیکو کے لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ مجرم اور لوگوں کی عزت لوٹنے والے لوگ ہیں۔ اس سے ٹرمپ کے خلاف شديد رد عمل پیدا ہوا۔‘‘

آئندہ ماہ ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں مبصرین ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابی کی توقع کر رہے ہیں۔ تاہم اس بات کا بھی امکان ہے کہ رپبلکن پارٹی اپنی اکثریت برقرار رکھ پائے۔ مینڈرین زبان کے اخبار’ ورلڈ جرنل‘کے ونسینٹ چنگ اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ان انتخابات کے نتائج صدر ٹرمپ کے لئے اعتماد کا ووٹ ہی ثابت ہوں۔

امیگریشن سے متعلق صدر ٹرمپ کے سخت مؤقف کی وجہ سے امریکہ میں تارکین وطن کی دوسری برادریاں بھی ان انتخابات میں خصوصي دلچسپی لے رہی ہیں۔ سیاہ فام برادری کے حوالے سے پامیلا انچنگ کہتی ہیں کہ وہ صحت کی دیکھ بھال اور تارکین وطن کی قانونی حیثیت کے حوالے سے خاص طور پر دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ اس برادری میں بہت سے افراد کے پاس امریکہ میں رہنے کے لئے قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔

ونسینٹ چنگ کہتے ہیں کہ اُن کا اخبار ٹیکس اصلاحات، معیشت اور خاص طور پر امیگریشن پر توجہ مرکوز رکھے گا۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تارکین وطن برادریوں کا جوش و جذبہ وسط مدتی انتخابات کے نتائج کو کس حد تک متاثر کر سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG