رسائی کے لنکس

پناہ گزینوں کے معاملے پر جرمنی کا یورپی یونین کو انتباہ


کروئیشیا کی طرف سے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو سرحد پار کرنے سے روکنے کی کوششوں کے باوجود ان کی ایک بڑی تعداد جمعہ کو کھیتوں اور کھلے میدانوں سے سربیا میں داخل ہو رہی ہے

جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اگر یورپی یونین کے بعض رکن ممالک نے پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے وضع کردہ کوٹے پر لیت و لعل سے کام لیا تھا دیگر رکن ملک اسے مسترد کر دیں گے۔

فرینک والٹر نے جمعہ کو جرمنی کے ایک اخبار کو بتایا کہ یورپ کو آئندہ ہفتے پناہ گزینوں کے معاملے پر وزرائے خارجہ کے ہونے والے اجلاس میں "اکثریتی" ووٹ کی توقع رکھنی چاہیے۔

28 رکنی یورپی یونین میں عام طور پر اہم امور پر اتفاق رائے سے ہی معاملہ طے کیا جاتا ہے۔

جرمنی کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کا ملک، آسٹریا، سویڈن اور اٹلی پناہ گزینوں کے امڈتے سیلاب کا بوجھ اکیلے نہیں اٹھا سکتے۔

ہنگری، جمہوریہ چیک، سلوواکیہ اور پولینڈ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ تجویز کردہ کوٹے پر عملدرآمد نہیں کریں گے۔

ادھر کروئیشیا کی طرف سے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو سرحد پار کرنے سے روکنے کی کوششوں کے باوجود ان کی ایک بڑی تعداد جمعہ کو کھیتوں اور کھلے میدانوں سے سربیا میں داخل ہو رہی ہے جہاں سے یہ مغربی یورپ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

کروئیشیا میں تقریباً 11 ہزار سے زائد تارکین وطن اور پناہ گزین پہنچ گئے تھے جس نے سربیا کے ساتھ اپنی تمام سرحدیں اور سڑکیں بند کردی ہیں۔

ان لوگوں کو روکنے سے تاحال قاصر رہنے والے پولیس اہلکار کروئیشیا کے تووانک ریلوے اسٹیشن پر موجود ہیں جہاں ہزاروں پناہ گزینوں نے رات کھلے آسمان تلے گزاری جب کہ بعض رات و رات سربیا منتقل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

دو دونوں کے دوران ان افراد کی ایک بڑی تعداد کروئیشیا پہنچی جس نے یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ تارکین وطن کو اپنے ہاں سے گزرنے دے گا لیکن اسے اتنی بڑی تعداد کے اچانک یہاں پہنچنے کی توقع نہیں تھی۔

وزیرداخلہ رانکو اوستووچ بھی یہاں پہنچے اور ان کا کہنا تھا کہ پولیس برداشت کا مظاہرہ کرے گی۔

"ہم یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کسی بھی بڑے حادثے اور بغیر طاقت کے استعمال کے ہم صورتحال کو قابو کرنے کے قابل ہیں۔"

لیکن پھر یہاں صورتحال اچانک اس وقت صورتحال کشیدہ ہونے لگی جب تارکین وطن نے یہاں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا۔

ان افراد میں بچے، حاملہ خواتین اور حتیٰ کہ شیر خوار بچے میں شامل ہیں اور شدید گرمی میں ان کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی نہیں ہے۔

سرحد پر صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ جو دوسری جانب پہنچنے میں کامیاب ہوئے ان کے خاندان کے کچھ لوگ ان سے بچھڑ گئے جب کہ شدید موسم کی وجہ سے بعض افراد کے بیہوش ہونے کی خبر بھی سامنے آئی ہے۔

تاحال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ کروئیشیا ان تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھنا چاہتا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اسے اتنی بڑی تعداد کے یہاں پہنچنے کی توقع نہیں تھی اور اس نے بھی ہنگری کی طرح اپنی سرحد کو بند کر دیا ہے جس سے صورتحال کے مزید بگڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG